لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان کو آئی ایم ایف سے متوقع ریلیف پیکیج تو مل گیا ہے لیکن دیکھنا پڑے گا کیا اس کے بعد ہم معاشی بحران سے نکل اور اپنی نئی معاشی پالیسیوں کے ہدف پورے کر پائیں گے اور پیکیج کے اثرات کس حد تک عوام پر پڑیں گے۔ مشیر خزانہ کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ثابت ہوگا کہ آئی ایم ایف سے یہ ہمارا آخری پیکیج ہوگا۔
جہاں تک اس پیکیج کے اثرات کا تعلق ہے تو معاشی محاذ پر غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوگا اور کچھ عرصہ کیلئے ہم بحرانی کیفیت سے نکل پائیں گے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی حوصلہ افزا ضرور ہوں گے لیکن یہ ضرور مدنظر رکھنا پڑے گا کہ سعودی عرب اور ابوظہبی سے ملنے والے 4 ارب ڈالرز کی مدت ایک سال کیلئے ہے۔ کیا ایک سال کے بعد وہ اس مدت کو بڑھا پائیں گے یا ہم انہیں لوٹانے کی پوزیشن میں ہوں گے کیونکہ دونوں ممالک نے جن حالات میں ہماری مدد کی اور جن کے کہنے پر کی ہمیں ان کے مفادات اور ضروریات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔
پاکستان کو درپیش مالی اور معاشی بحران کا مستقل حل یہی ہے کہ پاکستان کے اندر ٹیکس کے سسٹم کو موثر بنایا جائے اور اسے صرف تنخواہ داروں تک محدود کرنے کے بجائے ان طبقات اور لوگوں تک وسیع تر کیا جائے جو ٹیکس شیٹ میں آنے کیلئے تیار نہیں۔ حکومت ملک کے اندر ہی لوٹ کھسوٹ کے مرتکب عناصر کے گرد گھیرا تنگ کر لے تو 1200 ارب تک وصولی ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے عناصر کی تفصیلات ایف بی آر اور دیگر حکومتی اداروں کے پاس موجود ہیں لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے ہر حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد بڑے بڑے دعوے کرتی اور ٹیکس خوروں کی گردن کاٹنے کے نعرے لگاتی نظر آتی رہی مگر ٹیکس خوروں جیسے مضبوط طبقہ پر ہاتھ نہ ڈالا جاتا رہا اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ تنخواہ دار طبقے کا خون نچوڑا جاتا رہا مگر اربوں کھربوں کے اثاثے رکھنے والوں ، بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے اور دنیا کی سیریں کرنے والوں کو ٹیکس شیٹ میں نہ لایا جا سکا اور اگر اب بھی حکومت اپنے وعدوں پر کاربند نہ رہی اور کمپرومائز کرتی رہی تو اس سے شرح پیداوار سست رہے گی، غربت کی شرح بڑھے گی۔
جہاں تک نجکاری کے عمل کا سوال ہے تو یقیناً اس سے بین الاقوامی ادارے تو مطمئن ہوں گے لیکن بیروزگاری پروان چڑھے گی، بدقسمتی یہ ہے پاکستان پہلے ہی خطے میں بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے وزیراعظم عمران خان ملک کو معاشی دلدل سے نکالنا اور عوام کو یقینی ریلیف دینا چاہتے ہوں لیکن عملاً صورتحال یہ نظر آ رہی ہے پاکستان کے عام مسائل کی جڑ یہاں روا رکھا جانے والا سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی بنیاد سودی معیشت پر ہے اور ملکی معیشت قرضوں کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ موجودہ حکومت جو تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی بالآخر وہ بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے سامنے ڈھیر ہو گئی، ہر حکومت سخت شرائط کو تسلیم کرتی رہی، موجودہ حکومت کو تو ایف اے ٹی ایف کا چیلنج بھی درپیش ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اشیائے ضروریات کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔
حفیظ شیخ کے مشیر خزانہ اور رضا باقر کے سٹیٹ بینک کے گورنر بننے کے بعد یقین تھا آئی ایم ایف کا پیکیج تیار ہے جہاں تک شرائط کی بات ہے تو شرائط ان کی تسلیم ہوتی ہیں جن کی بنیادیں مضبوط ہوں اور وہ کھڑے نظر آ رہے ہوں لیکن جب حکومتیں اور حکمران خود حالات کے رحم و کرم پر ہوں تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ‘‘فریب زندگی ہے بہاروں کی زندگی’’۔ اب نئے سہاروں سے فریب کھانے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے حکومت ملک کو سہاروں پر کھڑا کرنے کے بجائے معاشی میدان میں اصلاحات کرے اور ان سے ٹیکس وصول کرے جو دینے کو تیار نہیں اور جنہیں دینا ہے اور ان کا خون نچوڑنا بند کرے۔
یہ بھی دیکھنا ہوگا حکومت آئی ایم ایف پیکیج پر انحصار کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہے یا اس سے نجات کیلئے بڑے سیاسی اور معاشی فیصلے کرتی ہے۔ کاش وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت بڑے فیصلے کریں۔ جہاں تک مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے اس عزم کا سوال ہے کہ یہ آئی ایم ایف سے آخری پیکیج ہوگا تو اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کسی آئی ایم ایف کے مشیر خزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے پھیلائے جانے والے جال میں وہی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں جو کمزور ہوتی ہیں اور یہ فریضہ بھی آئی ایم ایف کے حکام ہی سرانجام دیتے ہیں لہٰذا خدا کرے ہم آئی ایم ایف سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کریں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو تو ریلیف مل گیا ہے کیا مسائل اور مہنگائی زدہ عوام کو بھی ریلیف مل سکے گا، اس حوالے سے گیند عمران خان کی حکومت کے کورٹ میں ہے کیونکہ ان کی حکومت سے عوام کو جو ریلیف کی امید تھی وہ تو نہ مل سکا البتہ ان کی تکالیف میں اضافہ ہوا اور اب عوام ایک مرتبہ پھر امید افزا نظروں سے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔