لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلم لیگ ن نے عید کے بعد ملک بھر میں مہنگائی، بیروزگاری کے خلاف رابطہ عوام مہم چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکمران منہ بند رکھتے تو آج معیشت کا یہ حال نہ ہوتا۔ حکمرانوں کیلئے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اگر سچ نہیں بول سکتے تو جھوٹ بھی نہ بولیں۔ ن لیگ نے سڑکوں پر آنے یا حکومت گرانے کے حوالے سے فیصلہ کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم کا ذکر کیا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے مذکورہ فیصلہ کا اظہار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں پارٹی اجلاس کے حوالہ سے بریفنگ کے دوران کیا۔ اس اجلاس کے مقاصد کیا تھے ، ایجنڈا کیا تھا ؟ کیا مسلم لیگ ن کو رابطہ عوام مہم میں پذیرائی مل سکے گی ؟۔
حکومت کا ردعمل اس حوالہ سے کیا ہوگا اور مہنگائی کو ایشو بنانے کا سلسلہ شروع ہوا تو حالات کا رخ کیا ہوگا۔ جہاں تک اجلاس کے ایجنڈے اور مقاصد کا سوال ہے تو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اسے اہم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پارٹی لیڈرشپ کو درپیش مقدمات اور حالات کے بعد مسلم لیگ ن نے سیاسی محاذ پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی تھی، اس سے یہ تاثر ابھرتا تھا کہ شاید مقدمات کے حوالہ سے کسی سطح پر بات چیت کا عمل جاری ہے، لیکن نواز شریف کی چھ ہفتے کیلئے ضمانت سے پارٹی قیادت کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن جاتی عمرہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور مشاورت کے عمل نے پارٹی کی تنظیم اور سیاست کے حوالہ سے ایک نیا لائحہ عمل ضرور طے کر لیا، جس کے نتیجہ میں اب مرحلہ وار سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں، جماعت کے اندر مصالحت کیلئے سرگرم لوگوں کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوئی اور وہ پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
دوسری جانب مریم نواز غیر اعلانیہ طور پر سیاسی محاذ پر متحرک ہو رہی ہیں اور ان کی جانب سے آنے والے ٹویٹس بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ لیڈر شپ نے پسپائی اختیار نہیں کی اور ان کی جانب سے خاموشی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھی۔ لہٰذا نئے حالات میں تنظیم نو اور پھر بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر کے بعد پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کو نئے حالات میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اب عیدالفطر کے بعد رابطہ عوام مہم اور خصوصاً مہنگائی کے ایشو پر احتجاج کتنا کارگر ہوگا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آج عوام کا بڑا ایشو مہنگائی، بے روزگاری، غربت ہے اور خوف و ہراس کی کیفیت میں کوئی بھی کھل کر عوام کی آواز بننے کو تیار نہیں۔
آج اگر مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ اسے عوام کی آواز بننا ہے اور مہنگائی زدہ عوام سے یکجہتی کا اظہار کرنا ہے تو پھر اس کا بڑا دباؤ حکومت پر بھی آئے گا اور مسلم لیگ ن کو اس ایشو پر احتجاج سے کوئی نہیں روک سکے گا اور مہنگائی کی شرح بھی ایسی ہے کہ اگر ایک مرتبہ احتجاج کا یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر یہ روکا نہیں جاسکے گا۔ مریم نواز تو پہلے ہی یہ کہتی نظر آ رہی ہیں کہ حکومت کو گرانے کیلئے اپوزیشن کی ضرورت نہیں، حکومت خود ہی اس کیلئے کافی ہے، لیکن ان کی جانب سے اس امر کا اظہار یہ ظاہر کرتا ہے کہ اپوزیشن اپنا اصل کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔
اصل اور بنیادی سوال یہی ہوگا کہ کیا واقعتا مسلم لیگ ن مشکلات، مقدمات اور لیڈرشپ کی صعوبتوں کے بعد ایک مرتبہ پھر مشکل اور کٹھن راہ کا انتخاب کر چکی ہے۔ ان کی تنظیم نو سے تو ظاہر ہو گیا ہے کہ آگے وہی آئے گا جو نواز شریف کے بیانیہ اور مریم نواز کی قیادت کو قبول کرے گا۔ اب تک جماعت کے اندر مصلحت پسندی کیلئے کوشاں عناصر کو پارٹی کی تنظیم نو کے ذریعہ پیغام مل چکا ہے کہ پارٹی کہاں کھڑی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کا لائحہ عمل کیا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ن لیگ مصلحت پسندی سے بالاتر ہو کر جدوجہد کے نئے راستے پر گامزن ہے اور اگر وہ اس راستے پر یکسوئی اور ثابت قدمی قائم رکھتی ہے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی سیاست کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور عوامی طاقت پر یقین رکھنے والوں کو عوامی طاقت مل جاتی ہے۔