لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر نیب نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا، انکی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت بھی مسترد ہوئی تاہم چیئرمین نیب نے انکے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے، اس سے پہلے چیئرمین نیب یہ کہہ چکے ہیں کہ نیب کی پالیسی میں اس بات کی احتیاط کی جاتی ہے کہ خواتین کو گرفتار نہ کیا جائے، لگتا یہی ہے کہ اسی پالیسی کی وجہ سے فریال تالپور کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
آصف زرداری جعلی بینک اکاؤنٹس سمیت مختلف کیسز میں 31 اگست 2018 سے عبوری ضمانت پر تھے اور 9 ماہ 10 دن عبوری ضمانت پر رہے۔ نیب نے صرف دو کیسز میں آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں لیکن معاملات ایک درجن کے قریب ہیں جن میں نیب کو زرداری صاحب مطلوب ہیں اور نیب ان سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے یہ معاملات انتہائی سنگین ہیں اور منی لانڈرنگ کیسز سے جڑے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری لمبی عدالتی اور قانونی جنگ میں داخل ہو گئے ہیں اس قسم کی جنگ وہ پہلے بھی لڑ چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اس قسم کی عدالتی جنگوں کیلئے بہت ہی تجربہ کار شخصیت ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصف زرداری ایک طویل عرصے کے لئے نیب کی قید میں ہیں انکی گرفتاری بہت بڑا سیاسی واقعہ ہے وہ پیپلز پارٹی کے عملاً سربراہ، ملک کے سابق صدر اور دوسرے بڑے صوبے سندھ میں انکی حکومت ہے۔ ایک جانب سے نیب اور حکومت کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ احتساب کا عمل منطقی انجام تک پہنچایا جا رہا ہے، اس کے لئے آج بہت بڑا سنگ میل عبور کیا گیا ہے۔
یہ سوال طویل عرصہ سے منڈلا رہا تھا کہ کیا واقعی آصف زرداری کو گرفتار کیا جائے گا ؟ میزبان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی گرفتاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی نفسیاتی دباؤ میں آگئی ہے اور وہ سمجھتی ہے یہ دباؤبڑھتا ہی جائے گا یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نیب کے 3 کیسز میں زیر تفتیش ہیں اس حوالے سے ان کا معاملہ بھی کافی سنگین ہے آج کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا کہ لیکن سیاسی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے پاس اس انداز کی قوت نہیں ہے کہ وہ کوئی بھرپور تحریک چلاسکے وہ مسلم لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ساتھی ہے مگر ان جماعتوں کے درمیان اختلافات سطحی طور پر نظر نہ آئیں مگر اندرونی طور پر بہت گہرے ہیں۔ آج قومی اسمبلی میں اس پر احتجاج ہوا، ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی میں احتجاج شروع کیا، مسلم لیگ ن والوں نے پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ مل کر نعرے تو ضرور لگائے لیکن ان کے انداز سے کہیں یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی بھرپور احتجاج کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔
آصف زرداری کی گرفتاری کا مطلب کیا ہے ؟ اس حوالے سے ممتاز تجزیہ کار فہد حسین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس گرفتاری پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی لیکن کیا اس گرفتاری سے اپوزیشن کے سڑکوں پر احتجاج میں کوئی تیزی آئے گی، ایسا نہیں لگتا، انہوں نے کہا کہ زرداری کا مستقبل دو طرح سے دیکھا جاسکتا ہے، ایک قانونی، دوسرا سیاسی، قانونی طور پر ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب نیب گرفتار کرتا ہے اس کے بعد تفتیش کا ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے۔ نیب اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار استعمال کرے گا، بظاہر لگتا ہے کہ ریفرنس دائر ہوگا اور پھر ٹرائل ہوگا۔ دوسری طرف سیاسی پہلو یہ ہے کہ انکی گرفتاری سے پیپلز پارٹی کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا ؟ یہ بڑا سوال ہے ؟ فوری طور پر حکومت سندھ کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا کہ حکومت کا آصف زرداری کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں، آصف زرداری کی گرفتاری کوئی انوکھی بات نہیں۔ قومی اسمبلی میں پہلے اپوزیشن کے لوگ تقریر کرچکے تھے اور اس کے بعد شہباز شریف نے تقریر کی جو مختصر تقریر کرتے ہی نہیں، بلاول کو بھی ایوان میں بات کرنی چاہئے تھی لیکن پیپلزپارٹی یہ طے کر کے آئی تھی کہ ایوان کو مچھلی منڈی بنا ئے گی، اس میں بات نہیں کریں گے۔ فواد چودھری نے کہا کہ حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بجٹ اجلاس میں آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا سپیکر قومی اسمبلی کی صوابدید ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ وزراء کے بیانات سے لگتا ہے کہ حکومت اپوزیشن پر دباؤ ڈال رہی ہے، آصف زرداری ہر پیشی پر پیش ہوتے رہے ہیں، حکومت کو غلطیوں سے سیکھنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے مفاہمت کا راستہ اپنایا تھا، احتساب کا عمل شفاف ہونا چاہئے، کس نے کب پکڑے جانا ہے، پیشگوئیاں وزراء کرتے ہیں، حکومتی پالیسیاں ملکی معیشت کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ حکومت نے 7 سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دئیے تو غریب مارا جائیگا۔ احسن اقبال نے کہا کہ اناڑیوں نے ملک کا برا حال کر دیا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔