لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی نئی پالیسی اور قانون سازی کے عندیہ نے اس وقت کی پارلیمانی سیاست کو ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا کر دیا ہے۔
وزیراعظم ایک ماہ سے کافی حد تک جارحانہ موڈ میں نظر آ رہے ہیں اور اپنے خطابات میں کہتے نظر آ رہے ہیں کہ معیشت مستحکم ہو چکی اور میں اب کرپٹ ٹولے کے پیچھے آخری حد تک جاؤں گا۔ یہ بجا کہ پاکستان میں کرپشن ہمارے بہت سے مسائل سے جڑی ہوئی ہے اور سیاست اور کرپشن کا گٹھ جوڑ بھی پرانا ہے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر حربہ آزمایا جانا چاہئے مگر آئین اور دستور کے اندر رہ کر۔ اس موجودہ سیاسی منظر نامے میں جو سوالات ابھر رہے ہیں ان کا جواب آنا ضروری ہو چکا ہے۔ کیا حکومت یہ پوزیشن لیکر محض آج کو ذہن میں رکھ رہی ہے یا کوئی مستقبل کا خاکہ بھی اس کے ذہن میں ہے ؟ کیا پروڈکشن آرڈرز کا کوئی غلط استعمال کر رہا ہے ؟ محض الزامات کی بنیاد پر سیاستدانوں کے خلاف ذہن بنایا جا رہا ہے ؟ ہائی پروفائل گرفتاریوں سے سیاسی ماحول میں تلخی آئیگی اس سے معیشت کے رہے سہے اعتماد کا کیا ہوگا ؟۔
موجودہ حالات میں جب حکومت اپنے بڑے بڑے حریفوں کو جیل یاترا کرا بیٹھی ہے اور ایوان میں محاذ آرائی میں اپنا حصہ ڈال کر بجٹ کو حیران کن طور پر پاس کرا چکی ہے تو ایک خیال یہ بھی تھا کہ نئے مالی سال کے آغاز میں حکومت ایک منجھی ہوئی اور سنجیدہ طرزِ سیاست کو لیکر چلے گی کیونکہ حکومت کے تمام امتحانات بظاہر ختم ہو چکے تھے ۔ مگر چند دن پہلے وزیراعظم کے آدھی رات کے خطاب کی دھمک ابھی باقی تھی اور حکومت نے اسی راستے پر چلنے کا مظاہرہ کیا۔ ایک جانب تلخ ترین بجٹ نافذ ہو چکا ہے اور دوسری جانب اسی روز اپوزیشن کے بڑے رہنما رانا ثناء اﷲ کی ڈرامائی طور پر منشیات برآمدگی میں گرفتاری ڈال دی گئی۔ یہ بڑا قدم بجٹ کے پہلے اور دوسرے روز سب پر بھاری پڑ گیا اور ملک کے طول و عرض میں اس کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔ اپوزیشن کو ظاہر ہے ایک خوفناک سگنل مل چکا ہے کہ کوئی سر ہرگز سلامت نہیں رہے گا خواہ کرپشن ہو یا نہ ہو۔
یہ گرفتاری سیاست کے طالبعلموں کو چودھری ظہور الٰہی، ولی خان اور میاں طفیل محمد کی یاد دلا گئی ہے۔ پاکستان 90 کی دہائی سے بھی نیچے گر کر ستر کی دہائی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ واضح ہو چکا کہ سیاسی عناصر نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس تمام صورتحال میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی ہے جب وزیراعظم نے کل حکومتی ٹیم کو پروڈکشن آرڈرزکے حوالے سے نئی ہدایات اور حکمت عملی بنانے کو کہا کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ارکان اسمبلی کو ہرگز اسمبلی کے فلور کی آڑ نہ لینے دی جائے۔ بظاہر تو یہ موقف مناسب ہے مگر اس کی آڑ میں سیاسی عزائم اور مقاصد نہایت مشکوک ہیں اور یہ احکامات محض کسی کی خواہش یا مرضی کے تابع نہیں بلکہ یہ ایک دستوری اختیار ہے جو سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے جو وہ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ایوان میں کوئی اہم ترین آئینی ضرورت موجودہو۔ لہٰذا عمران حکومت کو فیصلوں میں با اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اس حوالے سے ان جماعتوں کی قیادت اور اراکین اسمبلی بھی سیاسی مقاصد سے باز نہیں آتے، اس سلسلے میں افسوسناک صورتحال تب پیدا ہوئی جب پروڈکشن آرڈر پر آئے آصف زرداری نے ایک ٹی وی انٹرویو دے دیا جو کہ پروڈکشن آرڈر کی روح کے منافی ہے اس تمام صورتحال میں تمام سیاستدانوں کی مجموعی ذمہ داری یہ بن گئی ہے کہ محض الزامات پر ایک دوسرے کو چور اچکے اور کرپٹ کہنے اور سمجھے جانے کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔