لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی واضح اکثریت کے باوجود چیئرمین سینیٹ کی ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے چہ مگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ کیا اپوزیشن اپنے مقاصد میں کامیاب رہے گی ؟ اور اپوزیشن کا کسی مشترکہ امیدوار پر اتفاق رائے ہو پائے گا ؟۔
جہاں تک صادق سنجرانی کو ٹارگٹ کرنے کا سوال ہے تو مذکورہ چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کی مدد سے منتخب ہوئے۔ اس وقت سابق صدر آصف زرداری کا ٹارگٹ مسلم لیگ ن کو سبق سکھانا اور خود کو اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول بنانا مقصود تھا اور سابق صدر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے یہ وہ وقت تھا جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں میاں رضا ربانی کو چیئر مین بنانے کیلئے متفق تھیں۔ لیکن آصف زرداری کی نظر اپنے جماعتی مفادات سے زیادہ آنے والے حالات پر تھی اور انہوں نے صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنوا کر خود کو منوایا۔ لیکن وہ جس مقصد کیلئے سب کچھ کر رہے تھے حالات و واقعات اور ان پر بننے والے مقدمات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ بازی جیتے نہیں بلکہ ہارے تھے یہی وجہ ہے کہ آج موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلئے پیپلز پارٹی زیادہ سرگرم ہے اور لگتا یوں ہے کہ جن کی خوشی کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں اب انہیں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم بنا سکتے ہیں تو ہٹا بھی سکتے ہیں۔
لہٰذا پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرار داد جمع کرا دی ہے اور اسلام آباد میں سینیٹ کا محاذ سرگرم نظر آ رہا ہے۔ باوجود اس امر کے کہ اپوزیشن میں شامل بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت دیگر کے سینیٹرز کی تعداد 67 اور تحریک انصاف اتحادی ایم کیو ایم سمیت دیگر کی تعداد 36 ہے اور ایوان بالا میں قرارداد کی منظوری کیلئے 53 ووٹ درکار ہوں گے یہ انتخاب خفیہ رائے شماری پر ہوگا۔ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو پائے گی ؟ بظاہر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اپوزیشن بہ آسانی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کر کے اپنا چیئر مین سینیٹ لا سکتی ہے ، مگر اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی صورتحال اور ملکی سیاست پر پیدا شدہ رجحانات پر کڑی نظر رکھنے والے اور خود اپوزیشن کی صفوں میں اس حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کی جا رہی اور چہ مگوئیوں کا سلسلہ طاری ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی با آسانی تبدیلی کا عمل مستقبل میں قومی اسمبلی میں بھی ایسے ہی کسی اپ سیٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
جہاں حکومت اور اس کے اتحادیوں کو محض چند ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے اور ایک درجن سے بھی کم اراکین قومی اسمبلی اور خصوصاً ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں تو ایسی پوزیشن یہاں بھی طاری ہو سکتی ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ چیئر مین سینیٹ کی تبدیلی کا عمل اعداد و شمار کا کھیل نہیں اس پر سارے سسٹم کی بقا کا انحصار ہے لہٰذا عدم اعتماد کا عمل اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ اور خصوصاً اس حوالے سے بلوچستان کے سینیٹرز کو ایک مرتبہ پھر اہمیت حاصل ہوگی۔ کیونکہ یہ عمل سیکرٹ بیلٹ پر ہوگا اور ابھی سے ایسی باتیں شروع ہو چکی ہیں کہ سینیٹرز کو صف بندی میں دوسری طرف ووٹ دینے پر مجبور کرنے کے بجائے انہیں اپنی حاضری کے حوالے سے مجبور کر دیا جائے گا۔ جہاں تک اپوزیشن کے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کا سوال ہے تو پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن جیسی اکثریتی جماعت کا حق تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنا امیدوار لانے کو کہا ہے اس حوالے سے جو امیدوار مسلم لیگ ن کی قیادت میں زیر غور ہیں ان میں راجہ ظفر الحق اور بلوچستان سے نیشنل پارٹی کے امیدوار حاصل بزنجو کے نام لئے جا رہے ہیں اوربلوچستان سے ہی مسلم لیگ ن کے سردار یعقوب خان ناصر کا نام بھی زیر غور ہے مسلم لیگ ن کا چیئر مین سینیٹ منتخب ہونے کی صورت میں قائد حزب اختلاف کا منصب پیپلز پارٹی کو مل جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی چیئر مین سینیٹ سے رضاکارانہ پیچھے ہٹ گئی۔
اسلام آباد کے بعض ذرائع چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے عمل کے حوالے سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ چیئر مین سینیٹ کے منصب پر صادق سنجرانی کے انتخاب کو ممکن بنانے والے آصف زرداری کے پاس ہی ان کو ہٹانے اور بچانے کی کنجی ہے۔ جیل میں جانے کے باوجود ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر پیپلز پارٹی کے ذرائع اس کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب بہت دیر ہو چکی۔ چیئر مین سینیٹ کی تبدیلی سے ہی اصل کھیل کا آغاز ہوگا۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے حلقہ سینیٹ کی چیئر مین شپ کے لئے راجہ ظفر الحق کو مضبوط امیدوار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی چیئر مین سینیٹ کے انتخاب میں راجہ ظفر الحق مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے ۔ اور باوجود اکثریت ہونے کے وہ چیئر مین منتخب نہ ہو سکے تھے اور اب بھی واضح اکثریت کے باوجود اگر راجہ ظفر الحق مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوتے ہیں تو ان کی جیت کو یقینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر کے اندر متبادل امیدوار کے طور پر بلوچستان سے نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔