لاہور: (روزنامہ دنیا) لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر جنگلات اور تحریک انصاف کے رہنما سبطین خان کی درخواست ضمانت پر نوٹس جاری کر دیئے اور نیب سے جواب مانگ لیا۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سابق وزیر کے وکیل نے دعویٰ کیا نیب نے ان کے موکل کو پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں کرپشن کے بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کیا ،سبطین خان نے بطور صوبائی وزیر معدنیات قانون پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا، وہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں اور ان کیخلاف ریفرنس دائر نہیں کیا گیا اس لیے ان کی ضمانت منظور کی جائے ۔
واضح رہے کہ چنیوٹ مائنز اینڈ منرلز کیس اس حوالے سے انوکھا کیس ہے کہ نیب رپورٹ پر لاہور ہائی کورٹ نے اسے بند کیا مگر چیئرمین نیب کی ہدایت پر اسے ری اوپن کر دیا گیا۔ جسکی وجہ سے اس کیس پر بے شمار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 2015 میں ہائیکورٹ کے حکم پر نیب نے اس کیس کی تحقیقات کی۔ تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے نیب رپورٹ پر اس کیس کو بند کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ چنیوٹ میں دیئے گئے ٹھیکے سے خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، تاہم 4 برس بعد جون 2019 میں اس کیس کو ری اوپن کر دیا گیا، اپوزیشن کی جانب سے متعدد بار اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد نیب توازن کے طور پر حکومتی جماعت سے بھی گرفتاری کر لیتی ہے۔
چینوٹ مائنز کیس میں سابق وزیر جنگلات سبطین خان کی گرفتاری سے قبل 10 جون کو نیب نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو گرفتار کیا، فریال تالپور کو 14 جون کی صبح گھر میں نظربند کر دیا گیا تاہم اسی شام سابق وزیر جنگلات سبطین خان کو بھی گرفتارکر لیا گیا جس سے اس بیانیہ کو تقویت ملی کہ نیب متوازن پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ چنیوٹ کی کان سے لوہا نکالنے کا ٹھیکہ دینے کی سمری 2007 میں سامنے آئی، سبطین خان کے پاس 2007 میں وزیر کان کنی کا محکمہ تھا مگر سمری بعد میں منظور ہوئی جبکہ معاہدہ نگران دور حکومت میں ہوا اور اس وقت وزیر اعلیٰ جسٹس ( ر) اعجاز نثار تھے، سبطین خان معاہدہ دیتے وقت وزیر نہیں تھے مگر پھر بھی نیب نے انہیں دیگر افسران سے پہلے گرفتار کیا جبکہ معاہدے کے بیشتر افسران اور ذمے دار آج بھی آزاد ہیں اور اس دور کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) اعجاز نثار سے بھی باقاعدہ کوئی باز پرس نہیں ہوئی۔
اس کیس میں بعض قانون دانوں نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ کیا سابق وزیر جنگلات سبطین خان نے ٹھیکہ دیا ؟ کیا تحریک انصاف کے رہنما سبطین خان نے اختیارات سے تجاوز کیا ؟ کیا چیئرمین نیب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بند کیے گئے کیس کو ری اوپن کر سکتے ہیں ؟ کیا عدالت عالیہ کی اجازت کے بغیر کھلنے والا کیس توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا ، کیا نگران حکومت اتنا بڑا ٹھیکہ دینے کی مجاز ہے اور کیا سبطین خان کی گرفتاری سے قبل ان حقائق کا نیب کو علم تھا یا نہیں۔
دوسری جانب بعض ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ عدالت کی جانب سے کیس تو بند کیا گیا تھا مگر اس کیس کے حوالے سے ایک درخواست اس دور میں اینٹی کرپشن میں بھی دائر ہوئی تھی جس پر اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل مظفر رانجھا نے اس کیس کی دوبارہ تحقیقات کرنے کا حکم دیا اور وہیں سے یہ کیس نیب کے پاس ریفر ہو گیا، اس ضمن میں جب ترجمان نیب سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اینٹی کرپشن اس کیس کی تحقیقات کر رہا تھا جس کے بعد یہ کیس نیب کو ریفر کر دیا گیا اور تحقیقات کے بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔