کنٹرول لائن کی صورتحال، مودی کے جارحانہ طرز عمل میں اضافہ

Last Updated On 31 July,2019 09:12 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) بھارت کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اندرونی و بیرونی طور پر اپنے طرز عمل اور حکمت عملی کے حوالے سے کسی پریشانی سے دو چار ہوا تو اس نے اس پر ندامت اور شرمندگی کی بجائے اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے کوئی غیر معمولی صورتحال طاری کرنے کی کوشش کی تا کہ اس کے پیچھے چھپا جا سکے اور اس کیلئے اس نے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کروانے سے بھی گریز نہیں کیا، جس کی پاکستان میں بڑی مثال بلوچستان اور کراچی میں کلبھوشن نیٹ ورک تھا۔

وزیراعظمعمران خان کے دورہ امریکہ کے حوالے سے خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مشاورت کے ذکر نے بھارت سرکار اور میڈیا میں آگ لگا رکھی ہے اور ان کی چیخ و پکار سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ خود اپنے ہی ملک میں اس حوالے سے سخت پریشانی سے دو چار ہیں لہٰذا اپنے آپ کو اس صورتحال سے نکالنے کیلئے پاکستان کو اندرونی طور پر ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ ہوا اور روایتی حربوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پہل دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات کے ذریعے پاکستانی فورسز کو ٹارگٹ کیا گیا اور اب کھلے طور پر اپنے جارحانہ عزائم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کنٹرول لائن کے ساتھ ڈنہ، دھندیال، شردا، شاہکوٹ، جورا، لیپا کے مقامات پر شہری آبادیوں پر گولہ باری کر کے نئی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں ایک نوجوان لقمان شہید اور خواتین اور بچے زخمی ہوئے۔ پاک فوج نے رد عمل کے طور پر جوابی گولہ باری کی اور اس طرح تین بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال گولہ باری اور پر امن شہریوں کی شہادت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، وزیراعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں لائن آف کنٹرول کا محاذ مسلسل سرگرم ہے۔ وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی سیکٹر میں بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بھارت کے اس طرز عمل کو سمجھنے کیلئے بھارتی سرکار کا مائنڈ سیٹ پڑھنا ضروری ہے جس سے نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے اس کے جارحانہ طرز عمل میں اضافہ ہوا ہے اور خود بھارتی سرکار خصوصاً نریندر مودی کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک بھارت کے جارحانہ رویئے میں اضافہ ہوا ہے جو عالمی طاقتوں کیلئے چیلنج اور خود بھارت کے مستقل مزاج طبقات کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

وزیرستان اور تربت کے مقامات پر دہشت گردی کے دو منظم واقعات کے بعد اب کوئٹہ میں دہشت گردی کا ایک اور واقعہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دشمن بوکھلاہٹ سے دوچار ہے اور وہ پاکستان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ یہ بھول رہا ہے کہ آج کا پاکستان 1971ء کا پاکستان نہیں 2019 ء کا وہ پاکستان ہے جو اپنے دفاع کے حوالے سے پر عزم اور پاک سر زمین کے چپے چپے کی حفاظت کیلئے ہر طرح کی قربانی کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ لہٰذا بھارت کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ البتہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے جواب میں جہاں عالمی محاذ پر اسے بے نقاب کیا جائے وہاں ان بیرونی خطرات کے جواب میں اندرونی طور پر اتحاد و یکجہتی کا ثبوت دیا جائے اور ملک کے اندر سے انتشار، خلفشار اور محاذ آرائی کی بیخ کنی کی جائے یہ مت بھولا جائے کہ بھارت جیسا دشمن مکار، عیار اور کمینہ ہے اس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارت لاتوں کا بھوت ، باتوں سے ماننے والا نہیں۔ اس کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانے کیلئے خارجہ آفس کو متحرک کیا جائے اور اپنے دوستوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
 

Advertisement