اسلام آباد: (دنیا نیوز، رپورٹ: ذوالفقارعلی مہتو) رائل پام فرانزک آڈٹ رپورٹ میں 50 کروڑ کی ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے، کلب انتظامیہ کو 6 ارب 10 کروڑ کا نادہندہ قرار دیا گیا جبکہ کمائی سے 60 کروڑ شیخ رمضان کیطرف سے اپنی دیگر کمپنیوں کو ٹرانسفر کئے گئے۔
پاکستان ریلوے کی لاہور میں نہر کنارے واقع 141 ایکڑ زمین اور 2 لاکھ 28 ہزار 753 مربع فٹ رقبے پر تعمیر شدہ عمارات پر مشتمل رائل پام گالف کلب کی مالیت کا اندازہ 37 ارب روپے سے زائد سامنے آیا ہے جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے رائل پام معاہدے سے متعلق فرانزک آڈٹ رپورٹ بھی تیار کر لی ہے۔ ریلوے کی تاریخ کی یہ پہلی فرانزک آڈٹ رپورٹ ڈائریکٹر آڈٹ شوزب رضا نے تیارکی ہے جس میں رائل پام کلب کے مالک شیخ رمضان کی کمپنی مین لینڈ حسنین پاکستان لمیٹڈ کو پاکستان ریلوے کا تقریباً 6 ارب 10 کروڑ روپے کا نادہندہ قرار دیدیا گیا ہے اور شیخ رمضان کی طرف سے ریلوے کے ذمے 8 ارب 50 کروڑ روپے کے کلیم کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
یہ دلچسپ حقیقت بھی رپورٹ کا حصہ ہے کہ آڈیٹروں کے 6 ارب 10 کروڑ روپے کے مقابلے میں ریلوے نے شیخ رمضان کے ذمے 3 ارب 49 کروڑ 73 لاکھ روپے واجب الادا قرار دئیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فرانزک آڈٹ رپورٹ میں 50 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری جبکہ رائل پام کی کمائی سے 60 کروڑ روپے شیخ رمضان کی طرف سے اپنی دیگر کمپنیوں کو ٹرانسفر کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے بعد رائل پام کی انتظامیہ نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو آڈٹ شدہ سالانہ حسابات جمع نہیں کرائے اور نہ ہی ایف بی آر، رائل پام کلب کے اکاؤنٹس آپریٹ کرنے والے بینکوں کو سالانہ حسابات کی رپورٹ جمع کرائی گئی۔
دنیا نیوز کی تحقیقات اور آڈٹ رپورٹ میں یہ خوفناک انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ریلوے کے 23 اعلیٰ افسروں سمیت مختلف سرکاری محکموں کے 93 افسروں کو رائل پام انتظامیہ نے اعزازی ممبر شپ سے نواز رکھا ہے جبکہ عام طور پر اس ممبر شپ کی قیمت 10 سے 15 لاکھ روپے تک بتائی جاتی ہے ، جن ریلوے افسروں کو اعزازی ممبر شپ دی گئی ان میں موجودہ آئی جی ریلوے واجد ضیا اور سی ای او آفتاب اکبر کے علاوہ سابق چیئرمین ریلوے قاضی جاوید اشرف، افضل مظفر، سمیع خلجی، شکیل درانی، خورشید خان سمیت دیگر شامل ہیں جبکہ ایک موجودہ وفاقی وزیر بھی لسٹ کا حصہ ہیں۔
خبر کے بارے میں ایم ایچ پی ایل کے مالک شیخ رمضان نے دنیا نیوز کے رابطے پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ کلب کے ہالز، سینما، کنوپیز اور 2 لاکھ 50 ہزار مربع فٹ سے زائد کورڈ ایریا کی تعمیراتی لاگت اور گالف کورٹس کی دیکھ بھال اور دیگر اخراجات پر ساڑھے 8 ارب روپے سے زائد خرچ ہوئے ہیں جس کا کلیم ریلوے کو داخل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے رائل پام کنٹری گالف کلب اراضی عمل درآمد کیس میں ریلوے نے ابتدائی رپورٹ جمع کرا دی، عدالت نے آڈیٹر جنرل ریلوے سے 3 روز میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ سپریم کورٹ میں رائل پام کنٹری گالف کلب اراضی عمل درآمد کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 2 رکنی خصوصی بینچ نے کی۔
ایم ایچ پی ایل کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی نے نظرثانی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نظر ثانی اپیل اس کیس کے ساتھ سنیں گے، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان ریلوے نے ایک کمپنی ایم ایچ پی ایل سے معاہدہ کیا تھا، اس معاہدے کے بعد گالف کلب تعمیر کیا گیا، گالف کلب بننے کے بعد اسے عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا، 140 ایکڑ کا معاہدہ تھا جبکہ 103 ایکڑ زمین لیز پر دی گئی، نیلامی کی شرائط میں 33 سال لیز تھی جبکہ معاہدے میں 50 سال لکها گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ معاہدہ غیر قانونی قرار دیا تھا اور زمین از سرے نو لیز پر دینے کا حکم دیا تھا۔
سماعت سے قبل وزارت ریلوے نے گالف کلب عمل درآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں کہا گیا تھا کہ وزارت ریلوے نے گالف کلب کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ گالف کلب کے حوالے سے ریکارڈ فرانزک آڈٹ ٹیم کے حوالے کر دیا ہے، گالف کلب کے انتظامی امور چلانے کیلئے انتظامی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کلب کا انتظام ملنے کے وقت 30 میں سے صرف 2 گالف ہول قابل استعمال تھے، دو ہفتوں میں 10 گالف ہول قابل استعمال بنا لیے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گالف کلب 391 ملازمین کو تنخواہ کی مد میں 80 لاکھ روپے سے زائد ادا کیے جاتے ہیں جبکہ گالف کلب کے یوٹیلیٹی بلز سمیت دیگر کوئی واجبات نہیں ہیں۔ عدالت نے سماعت کے بعد کارووائی 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔