لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے کشمیر کاز اور کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے آج جمعہ کے روز مظاہروں کیلئے انتظامات مکمل ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سمیت صوبائی صدر مقام اور ملک بھر میں مظاہروں کے ذریعے قوم کشمیر سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرے گی اور خود وزیراعظم عمران خان اسلام آباد میں اس حوالے سے منعقدہ ایک ریلی سے خطاب کریں گے۔ اس مرحلہ پر کشمیر کاز سے یکجہتی کے اظہار کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہ کس حد تک نتیجہ خیز ہوں گے ؟ کیا بھارت کو احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کے ذریعہ دباؤ میں لایا جا سکے گا ؟ عالمی رائے عامہ میں پیدا شدہ تحریک کس حد تک موثر اور مضبوط بنے گی اور کشمیریوں کے کیس کو کس حد تک پذیرائی مل سکے گی یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیر سے کمٹمنٹ کے اظہار کیلئے سب سے ضروری اصولی موقف پر استقامت اور عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر اچھی حکمت عملی کی تشکیل ہے جو ہمارے اصول و تاریخی اہداف کے حصول کا ذریعہ بن سکے۔ آج دنیا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان نے 5 اگست کے اقدام کے ذریعے اپنی ضد، ہٹ دھرمی کا عملاً مظاہرہ کر کے اپنی لیڈر شپ کے عہد و پیمان، عالمی اداروں اور ان کی قراردادوں کا مذاق اڑایا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ وہ طاقت اور قوت کے ذریعہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہ۔ دنیا کو بتایا جائے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک وحدت ہے اور اسے مستقل تقسیم کرنے کی کوئی تجویز پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ کا حل صرف اور صرف استصواب رائے ہے۔ اس بنیادی فریم ورک پر کاربند رہتے ہوئے ہم آگے بڑھیں گے تو ہمارا کیس مضبوط اور نتیجہ خیز ہوگا اس وقت جلد بازی سے یا کسی عالمی دباؤ کے نتیجہ میں الٹا سیدھا حل تلاش کرنا پاکستان اور کشمیریوں کے مفادات کے منافی ہوگا۔
ضرورت جذباتی بیانات اور نت نئے اعلانات سے زیادہ صبر و ہمت اور حکمت کی ہے۔ عالمی حالات میں آنے والے تغیر کے باعث امریکہ بھی اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہے۔ امریکہ کی اپنی خون آشام پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔ افغانستان میں اسے ہونے والی سبکی ڈھکی چھپی نہیں۔ اسے آخر کار مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ہے۔ دنیا کا میڈیا اور دانشور بھی چلاتے نظر آ رہے ہیں کہ مسائل کا حل طاقت کے بجائے مذاکرات سے نکالا جائے۔ خصوصاً کشمیر کی صورتحال پر عالمی میڈیا کی کروٹ نے بھارت کو عالمی محاذ پر ایکسپوز کیا ہے۔ ہمارے لئے عالمی محاذ پر حالات سازگار ہیں۔ ہماری بات سنی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس صورتحال کو اپنے حق میں بہتر انداز میں استعمال کرنا چاہئے۔
مسئلہ کو زندہ رکھنے کیلئے کشمیریوں کی تحریک مزاحمت سے یکجہتی کا اظہار ہونا چاہئے۔ بھارت پر دباؤ بڑھانا اور وہاں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو عالمی محاذ پر اٹھانا ہمارا ہدف ہونا چاہئے اور دنیا کو اس حقیقت اور سچ سے آگاہ کیا جائے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کا بڑا مقصد غاصب بھارت سے نجات ہے وہ کسی قیمت پر اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ دنیا کو بھی اس نکتہ پر لایا جائے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کو اپنی مرضی سے کرنے دیا جائے۔ وہ تمام شواہد دنیا کے سامنے رکھے جائیں جس سے انہیں پتہ چلے کہ بھارت نے کشمیر پر اپنے تسلط اور قبضہ کیلئے لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا۔ خواتین کی بے حرمتی کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ کشمیریوں کی دکانیں ، مکان اور املاک جلائے جانے کا عمل بھی روز مرہ کا معمول رہا اور سب سے اہم اور خطرناک یہ کہ یہاں پیلٹس گنز کے استعمال کے ذریعے نوجوانوں کو اندھا کیا جا رہا ہے۔
ہماری حکومت کی جانب سے پارلیمینٹرینز اور حکومتی ذمہ داران پر مشتمل وفود تمام اہم ممالک میں بھجوائے جانے کا اعلان تو ہوا مگر یہ کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس میں بہتری لانی چاہئے اور آج کے دن یوم یکجہتی کشمیر منانے کیلئے لازم تھا کہ اس دن کی حکومتی اپیل یا حکومتی اقدام کے بجائے، قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ پاکستان کی ساری قومی قیادت بھی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑی نظر آتی اور دنیا کو معلوم ہو جاتا کہ پاکستان کشمیر کاز پر متحد ہے، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بار بار کشمیر کاز کی بات اور بھارت پر دباؤ کا عمل ان کی یکسوئی اور سنجیدگی تو ظاہر کرتا ہے مگر انہیں اب تحریک انصاف کے سربراہ کے طور پر کردار ادا کرنے کے بجائے قومی لیڈر شپ کا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے یہ ان کی اصل طاقت ہوگا۔ کشمیر پر پیدا شدہ نئی صورتحال میں سب سے زیادہ احساس اس امر کا ہوا ہے کہ پاکستان نیوکلیئر پاور ہونے کے ساتھ ساتھ اگر معاشی حوالے سے مضبوط ہوتا تو آج دنیا ہماری بات غور سے سنتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کے طور پر ایک آزاد ، باوقار اور مضبوط پاکستان میں ڈھالیں کیونکہ ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان ہی کشمیر کاز میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔