بھارتی مائنڈ سیٹ ڈھکا چھپا نہیں، پاکستان کو کمزور کرنے پر تلا رہا

Last Updated On 28 August,2019 09:03 am

لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) پاکستان کی جانب سے بھارت کیلئے اپنی فضائی حدود کی بندش کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا جس کا باضابطہ اعلان اگلے 48 گھنٹوں میں متوقع ہے جبکہ بھارت اور افغانستان زمینی راستے سے ہونیوالے تجارتی عمل کی معطلی بارے بھی سنجیدگی سے غور جاری ہے۔ اعلانات اور اقدامات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پر بھارت پر دباؤ بڑھانے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کی میٹنگ میں اراکین کو فضائی حدود کی بندش بارے قوانین سے متعلق بریف کیا اور بتایا کہ فضائی حدود کے استعمال پر پابندی نہ ہونے کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی فضائی حدود استعمال کی۔ لہٰذا صورتحال کی روشنی میں اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ فضائی حدود کی بندش سے بھارت پر کس حد تک دباؤ آ سکے گا اور اس اقدام کو عالمی محاذ پر کیسے لیا جائے گا اور یہ کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ خصوصاً بھارت اور افغانستان کے درمیان زمینی راستے سے ہونیوالی تجارت کی بندش ممکن ہوگی اور اس کے اثرات خود افغانستان پر کیا پڑیں گے اور یہ کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر پر بھارتی قبضہ کیخلاف آنیوالے رد عمل پر عالمی برادری کہاں کھڑی ہے ؟ اور کیا بھارت کو اپنے اقدامات پر نظر ثانی پر مجبور کیا جا سکے گا ؟۔

جہاں تک فضائی حدود کی بندش کے اقدام کا سوال ہے تو یقیناً اس سے بھارتی بین الاقوامی روٹس متاثر ہونگے اور اس پر بڑا مالی دباؤ آئے گا اور پاکستان کی جانب سے یہ اقدام خوب سوچ بچار اور عالمی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہئے تا کہ اقدام کے مقاصد حاصل ہو سکیں اور بھارت کو پتا چل سکے کہ اگر وہ پاکستانی مفادات پر اثر انداز ہونے کیلئے ممکنہ اقدامات سے گریز نہیں برت رہا تو پھر پاکستان سے بھی اسے کسی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے طرز عمل کے حوالے سے یکسو، اب بھارت کے حوالے سے کوئی لچک دینے کو تیار نظر نہیں آتے اور فضائی حدود کی بندش کا اقدام بھی ان کی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے جہاں تک بھارت افغانستان کے درمیان تجارتی عمل کا تعلق ہے تو اس سے افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کے مثبت کردار کو بھارت ٹارگٹ کرنے کی کوشش کرے گا اور ویسے بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان اپنی طے شدہ حکمت عملی پر گامزن ہے کہ افغانستان میں امن ہونا چاہئے کیونکہ افغانستان کا امن پاکستان کے استحکام سے منسلک ہے۔ پاکستان پہلے مرحلہ میں بھارت سے اپنی تجارت بند کر چکا ہے لیکن افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی بندش کا عمل بہت سوچ بچار کا متقاضی ہے اس پر کوئی بھی فیصلہ افغان حکومت کو اعتماد میں لیکر کیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ اس مرحلہ پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بندش کو افغانستان کیخلاف پاکستانی اقدام کے طور پر لیکر پروپیگنڈا کا عمل شروع ہوگا کیونکہ پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی اقدام افغانستان کے مفادات کیخلاف نہیں بلکہ بھارتی تجارت پر اثر انداز ہونے کیلئے ہوگا۔

جہاں تک حکومت کی کشمیر کاز اور اس کیلئے کمٹمنٹ کے اظہار کے طور پر حکمت عملی اور اقدامات کا تعلق ہے تو یہ سارا عمل خوب سوچ بچار کیساتھ مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے جذباتی بنیادوں پر اعلانات سے گریز ہونا چاہئے کیونکہ کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال ایک بڑے کھیل کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور بھارت کی علاقائی چودھراہٹ کیلئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ لہٰذا حکومت کے تمام فیصلے سیاسی قوتوں اور دیگر طبقات کے نمائندہ رہنماؤں سے عالمی مشاورت کیساتھ ٹھنڈے دل سے غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ کیونکہ کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال اب ٹی ٹونٹی نہیں یہ باقاعدہ ایک ٹیسٹ میچ ہے اور اس پر ہمیں ایک مستقل حکمت عملی پر گامزن ہونا ہے۔ بھارت یقیناً ہمارے مقابلہ میں ایک بڑی معیشت ہے اور عالمی طاقتوں کے یہاں مفادات ہیں اور پاکستان کے کشمیر پر مبنی ہر انصاف کے موقف اور اپنا سیاسی کیس ہونے کے باوجود منفی پوائنٹ صرف یہ ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے اور کشمیر کاز کے حوالے سے ایک مضبوط موقف اور اس کی نتیجہ خیزی کیلئے معاشی اختیار ہے۔ پاکستان کا مضبوط، مستحکم ہونا ضروری ہے اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنے فیصلے خالصتاً اپنے قومی مفادات میں پوری سوچ بچار، باہمی مشاورت اور عوام کے جذبات و احساسات کے مطابق کریں۔

وقتی مفادات ، ذاتی ترجیحات اور بیرونی دباؤ کے تحت جو بھی فیصلے ہونگے وہ اس صورتحال میں تباہی کا ذریعہ بنیں گے، ترقی اور خوشحالی اور عزت ان کا حامل نہیں ہو سکتی۔ بھارت کا مائینڈ سیٹ پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ واضح رہا ہے۔ بھارت نے ہر موقع پر پاکستان کو شدید معاشی بحران سے دو چار کرنے کی کوشش کی اور ہم نے بڑی مشکل سے بڑی قیمت سے بھارت پر انحصار کو کم کیا اور اب کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ کے بعد باہمی تجارت کے عمل کا خاتمہ کیا۔ یقیناً اس سے ملکی معیشت کمزوری نہیں ہوگی، اس سے مقامی منڈی کو ترجیح ملے گی۔ معاشی تجزیہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت پر تجارتی انحصار سے ہماری منڈی کمزور ہوئی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کی فہرست میں شامل کرنے کے بیرونی ایجنڈا پر کام ہوا لیکن اس عمل کو پاکستان کے مفادات پر کاری ضرب اور معاشی خود کشی کی جانب پیش رفت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا۔

لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال میں جہاں عالمی محاذ پر بھارت کے مذموم ایجنڈا اور عزائم کو ایکسپوز کیا جائے وہاں ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے ممکنہ اقدامات ہونے چاہئیں اور یہ تاثر ختم ہونا چاہئے کہ کشمیر کے مسئلہ کو اپنے اوپر اس حد تک سوار کر لیا جائے کہ ملکی معیشت پر توجہ نہ ہو اور یہ سمجھا جائے کہ کشمیر ایشو کے باعث ملک کے اندر مہنگائی، بے روزگاری کا طوفان اور ملکی معیشت کی صورتحال بڑے ایشو نہیں رہے۔ ایسی بات نہیں یقیناً کشمیر ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ لیکن پاکستان کے 22 کروڑ عوام کیلئے روٹی، دال اور روزگار کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بیرونی محاذ پر کشمیر کاز کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے اندرونی مسائل خصوصاً معیشت پر بھی بھرپور توجہ دے۔ ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان ہی کشمیر پر اپنا کیس مضبوط بنیادوں پر لڑ سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت صرف کشمیر کے محاذ پر سرگرم ہو اور پیچھے ملکی حالات اور خصوصاً عوام کی حالت زار اس نہج پر پہنچ جائے کہ حکومت کو نئے بحران سے دو چار ہونا پڑے۔