لاہور: (محمد حسن رضا سے ) حکومت کو ایک سال میں صوبہ بھر میں جہاں سو فیصد کام ہونا چاہئے تھا وہاں الٹ ہوتا دیکھائی دیتا رہا، معلوم ہوا ہے کہ جہاں بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر سیکرٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز سمیت دیگر اہم افسروں کی تعیناتی پر 224 افسروں کے تبادلے ہوئے ہیں وہاں موجودہ دورِ حکومت میں پنجاب پولیس میں ایک سال کے دوران تقریباً 260 اہم افسر من پسند تقرریاں کراتے رہے، افسر صرف اپنے چہیتوں کے کام کرتے رہے لیکن جو ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا وہ کام پر کچھ نہ کیا جا سکا۔
پنجاب کے بڑے اہم اضلاع میں کہیں گجر گروپ، ق لیگ گروپ، صوبہ محاذ گروپ تو کہیں آزاد گروپ (نان منتخب افراد) کی مبینہ مداخلت پر تبادلے دھرادھڑ کئے جاتے رہے ہیں، یہاں تک کے موجودہ آئی جی پنجاب کی تعیناتی کے بعد ان کے معاملات میں بھی مداخلت کا سلسلہ جاری رہا اور ان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ کام نہ کرسکیں۔ اعلیٰ افسروں کے اختیارات ہی متعدد افراد اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں، جس کا بس چلتا ہے وہ اپنی مرضی سے تبادلہ کر الیتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں آئے روز تقرر و تبادلے سے افسر نہ تو ٹاسک حاصل کر سکے ہیں جو بھی افسر کام شروع کرتا تو درمیان میں ہی ادھورا چھوڑنا پڑ جاتا او اس کا تبادلہ ہونے سے دوسرا افسر تعینات ہو جاتا رہا، اسی طرح ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز کی تعیناتیوں تک یہی سلسلہ ایک سال سے چل رہا ہے۔
پنجاب پولیس میں ایک سال میں ہونیوالے تبادلوں پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے مبینہ طورپر سفارش کر کے منڈی بہاؤالدین میں اپنا پسندیدہ ڈی پی او تعینات کروا رکھا ہے اور ان کی مبینہ سفارش محمد خان بھٹی کے کہنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کی اور ساتھ ہی گجرات میں بھی پہلے سے لگے پولیس افسر کو تبدیل کرایا پھر اپنا پسندیدہ افسر تعینات کرالیا، محمد خان بھٹی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وہ انسپکٹر کو وارننگ دے رہے ہیں جبکہ یہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں، آزاد گروپ بھی بہت ہی زیادہ ایکٹیو دکھائی دیتا رہا ہے، جب بھی ان کے نمائندے لاہور میں آتے تو وہ اپنی مبینہ فہرست دیکر جاتے کہ کس کو کہاں لگوانا ہے جس پر عملدآمد کرایا جاتا رہا ہے۔
آزاد گروپ کے ممبران میں جہانگیر ترین، نعیم الحق ، اعجاز چودھری سمیت دیگر افراد شامل ہیں، اسی طرح اگر دیکھا جائے تو آئی جی پنجاب ایکشن لیتے ہیں اور بعض جگہوں پر بہترین افسران تعینات کرنا بھی چاہیں تو بہت سے افسر سیاسی پرچی لیکر تبادلہ ہی رکوا لیتے ہیں، جو تبادلے ہوئے یا رکوا لئے جاتے رہیں ان میں سی سی پی او لاہور کا دو بار تبادلہ، ذوالفقار حمید ، پھر واپس لیا گیا، بی اے ناصر ایڈیشنل آئی جی لاجسٹک پھر واپس، ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد اکبر، پھر او ایس ڈی، وقاص نذیر پھر اشفاق خان کو تعینات کیا گیا، آر پی اوز کے ایک سال میں تین تین بار تبادلے کئے گئے، آر پی او سرگودھا سلطان احمد چودھری کو ڈی آئی جی سپیشل پروٹیکشن یونٹ ، بلال صدیق کمیانہ کا دو بار تبادلہ ہوا ہے ،فیصل آباد سے شیخوپورہ تعینات ہوئے۔
بہاولپور میں سہیل تاجک ، پھر سہیل تاجک کو شیخوپورہ ، طارق چوہان کو لگایا گیا، سرگودھا میں آرپی اوز لیکن وزیراعلیٰ نے میرٹ پر لگایا ہے۔ پاکپتن میں تین تبادلے ہوئے، اوکاڑا میں تین ڈی پی اوز اطہر اسماعیل، ذیشان اصغر، پھر جہانیزیب کو لگایا گیا، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ہمایوں بشیر تارڑکو تبدیل کرکے آر پی او ساہیوال جبکہ آر پی او شارق کمال صدیقی کو تبدیل کر کے ڈی آئی جی ویلفیئر پنجاب لگایا گیا۔ ڈی آئی جی سکیورٹی ڈویژن لاہور عمران احمر کو تبدیل کر کے آر پی او ڈیرہ غازی خان تعینات تو کبھی شیخ محمد عمر کو تبدیل کر کے ڈی آئی جی سپیشل پروٹیکشن یونٹ پنجاب لگایا گیا، سلطان احمد چودھری کو سپیشل پروٹیکشن یونٹ سے تبدیل کرکے او ایس ڈی بنا دیا گیا، بہاولپور میں وزیراعلیٰ کا انتہائی قریبی رشتہ دار تیمور خان ہر جگہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ترجمان پنجاب پولیس نایاب حیدر کا کہنا ہے کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ موجودہ آئی جی پنجاب عارف نواز ہر طرح سے پروفیشنل کام کر رہے ہیں اور سیاسی مداخلت کو ہر طرح سے ختم کیا جا رہا ہے، پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے ، صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس میں میرٹ پر تعیناتیاں کی گئی ہیں، سیاسی مداخلت کا خاتمہ کر دیا گیا، پولیس اصلاحات کے حوالے سے کام کیا جا رہا ہے، اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کے لئے بھی کام ہو رہا ہے۔