لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کیساتھ' کے مطابق مسلم لیگ ن اور جے یوآئی (ف) حکومت مخالف آزادی مارچ اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کے حوالے سے متفق ہو گئیں۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن شہباز شریف کے گھر گئے تھے اور ان کیساتھ احتجاجی لائحہ عمل پر ڈھائی گھنٹے تک تبادلہ خیال کیا تھا۔اہم پیشرفت سامنے آئی ہے کہ شہباز شریف نے جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی ،موجودہ صورتحال میں اس ملاقات کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا مسلم لیگ ن نے دھرنے کے مقاصد سے اصولی طور پر اس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے تا ہم حتمی فیصلہ 30 ستمبر کو ن لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد ہو گا۔ اس اجلاس میں جے یو آئی کے نمائندے اکرم درانی بھی شریک ہونگے، اجلاس کی سفارشات نواز شریف کو پیش کی جائیں گی اور بالآخر فیصلہ نواز شریف کریں گے جہاں تک دھرنے کی تاریخ کا سوال ہے تو شہباز شریف سے ملاقات کے دوران مولانا مصر تھے کہ اکتوبر میں ہی دھرنے کا اعلان کیا جائے لیکن شہباز شریف نے انہیں باور کرایا کہ اس وقت پنجاب خاص طور پر اسلام آباد، راولپنڈی میں ڈینگی کی وبا خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے اس لئے اکتوبر کو بھول جائیں۔ ،نومبر میں درجہ حرارت کم ہوگا اور ڈینگی کے اثرات بھی ختم ہو جائیں گے لہذا اکتوبر کی بات تو ختم ہو گئی ہے اور مسلم لیگ ن نے یہ منوا لیا ہے کہ جو بھی اقدام ہوگا نومبر میں ہوگا۔
اس بارے میں حتمی اعلان نواز شریف کریں گے تا ہم پارٹی کے اندر یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ پارٹی کے ذمہ دار اس حوالے سے خوف زدہ ہیں کہ مولانا کے دھرنے کے نتیجے میں حکومت تو گرسکتی ہے لیکن کیا پاکستان میں جاری جمہوری نظام تو نہیں لپیٹ لیا جائے گا ؟ مسلم لیگی رہنماؤں نے فضل الرحمن سے استفسار کیا ہے کہ وہ اپنے اہداف بتائیں، انہیں بتایا گیا ہے کہ 18 ستمبر کو جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہو گا اور اس میٹنگ میں طے شدہ حتمی اہداف ن لیگ کو بتا دیں گے جبکہ 30 ستمبر کو فیصلہ ن لیگ کرے گی، مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ کی قیادت کو یہ بھی بتایا ہے کہ اگر ن لیگ واضح اور کھل کر اعلان کرے گی تو وہ یقین دلاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی اس دھرنے میں شامل ہوسکتی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ن لیگ اس معاملے میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پارٹی کے ذمہ داران سے آج میرے رابطے ہوئے ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ مولانا کے دھرنے کے نتیجے میں کہیں جمہوری نظام خطرے میں نہ پڑ جائے، وہ مولانا سے پوچھتے نظر آئے کہ اگر حکومت گرتی ہے تو ہمیں 90 روز میں ملک میں نیا انتخاب چاہئے۔ اس حوالے سے ہماری حکمت عملی کیا ہوگی؟ جس پر فضل الرحمن نے انہیں کہا کہ وہ ن لیگ کو اپنے حتمی اہداف سے 18 ستمبر کی میٹنگ کے بعد آگاہ کریں گے۔
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم چاہتے ہیں نواز شریف کو عدالتی عمل کے ذریعے ریلیف ملے کیونکہ جس جج نے انہیں سزا دی تھی اسے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے پہلے معطل کیا اور اب او ایس ڈی بنا دیا، اس لئے نواز شریف کو دی گئی سزاؤں کا جواز باقی نہیں رہا اور انہیں فوری رہائی ملنی چاہئے، آج کی ملاقات میں بنیادی طور پر اپیل کے حوالے سے قانونی نکات، پاور حکمت عملی پر پارٹی قیادت اور وکلا نے مشاورت کی، دوسرا ہم نے نواز شریف کو کل فضل الرحمن سے ہونے والی ملاقات سے آگاہ کیا، 30 ستمبر کو ن لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں پارٹی مشاورت مکمل کرے گی، 18 ستمبر کو جے یو آئی کی مجلس عاملہ کا بھی اجلاس ہوگا جس میں ن لیگ کی تجاویز پر مشاورت ہو گی، اس کے بعد دونوں جماعتیں ملکر فیصلہ کریں گی، دونوں جماعتوں میں اتفاق ہے کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے پاکستان کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں، سب سے بڑا خطرہ ہماری معیشت ہے۔ انہوں نے کہا 30 ستمبر کے اجلاس کے بعد نواز شریف کے سامنے اجلاس کی سفارشات رکھیں گے، نواز شریف اور ہم سب کی خواہش ہے کہ پاکستان کو مزید تباہی سے بچایا جائے، نا تجربہ کاروں کے ہاتھوں ملک کی جو درگت بن رہی ہے اس کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔