لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) الیکشن کمیشن کی جانب سے مریم نواز کی نائب صدارت کے خلاف نا اہلی کی درخواستیں مسترد ہونے کے عمل کو مسلم لیگ ن اور خصوصاً اس کے کارکنوں اور نوجوانوں کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے اور اس فیصلہ کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر مقدمات اور قید و بند کی سہولتوں کے باوجود مریم نواز کے جماعتی اور سیاسی کردار کے آگے بند نہیں باندھا جا سکے گا اور وہ جب بھی قید و بند سے آزاد ہوں گی تو ان کی سیاسی پرواز ایک نیا رخ لے گی وہ سیاسی محاذ کو اپنی جماعت کے حوالے سے گرم کرتی دکھائی دیں گی۔
اس فیصلہ سے یقیناَ ان کے سیاسی مخالفین میں بھی مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ جنہوں نے ان کے سیاسی کردار کے آگے بند باندھنے کیلئے نااہلی کی درخواستیں دے رکھی تھیں اور یہ عمل بھی ان کی شخصیت اور کردار سے خوف کی علامت تھا جو دور نہ ہو سکا۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ سیاست ٹائٹل کی نہیں عملی جدوجہد اور بھرپور موقف کے تابع ہوتی ہے۔ لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ مذکورہ فیصلہ کے سیاسی محاذ اور خود مسلم لیگ ن کی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے۔ مریم نواز کا جماعت کے نائب صدر کی حیثیت سے جماعتی فیصلہ سازی میں کردار کیا ہوگا اور یہ کہ آنے والے حالات میں مسلم لیگ ن کی مشکلات میں کمی کے کیا امکانات ہیں۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے ن لیگ کی جماعت اور ملک کے سیاسی محاذ پر اثرات کا تعلق ہے تو اس کا جائزہ مریم نواز کے اب تک کے سیاسی کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ یقیناَ مسلم لیگ ن کے اندر ان کے حوالے سے ایک بڑا سافٹ کارنر تو موجود ہے، مگر پارٹی کے کچھ بڑے یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی محاذ پر ان کو کردار تو ادا کرنا چاہئے مگر اہم فیصلوں کا اختیار پارٹی کے تنظیمی ذمہ داران اور قیادت کو ہی ہونا چاہئے۔ جہاں تک مریم نواز کے سیاسی کردار کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنے والد کی جیل یاترا اور اپنے خاندان پر آنے والی مصیبتوں کے بعد جس جرأت مندی اور ثابت قدمی سے رابطہ عوام مہم چلائی اور مسائل زدہ عوام کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیا اس امر نے انہیں عوام کے اندر مقبول بنایا اور منڈی بہاؤ الدین سے شروع ہونے والی رابطہ عوام مہم ابھی فیصل آباد، اوکاڑہ، ساہیوال سے ہوتی ہوئی سرگودھا تک ہی پہنچی تھی کہ حکومت اور اس کے ذمہ داران اسے ہضم نہ کر سکے اور نہ ہی ان پر الیکٹرانک میڈیا میں کوریج کی پابندی انکا راستہ روک سکی اور انہیں جیل جانا پڑا۔
جماعتی حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی میں شہباز شریف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور آنے والے وقت میں جماعتی حوالہ سے ان کا کردار ہی اہم ہوگا۔ فیصلہ سازی میں شہباز شریف کو ہی بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔ پارٹی کے ایک ذمہ دار لیڈر کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا احترام اپنی جگہ لیکن کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے جس کے نتیجہ میں حکومت کے ساتھ سسٹم سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں۔ حکومت نے مریم نواز کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے حکومت کی مضبوطی کا تاثر نہیں ابھرتا نہ جانے کیوں حکومت مریم نواز کے سیاسی کردار سے خوف زدہ ہے۔