لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) پیپلز پارٹی کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں، مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے دامن بچانا کام آیا نہ بلاول کی اچانک پر اسرار خاموشی کارگر ثابت ہوئی ہے حتیٰ کہ سندھ اسمبلی میں فریال تالپور کا خیر مقدمی بیان بھی کوئی جادو نہ دکھا سکا اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ کو نیب نے اسلام آباد سے گرفتار کر لیا۔
ترجمان نیب کے مطابق خورشید شاہ کو سرکاری پلاٹوں پر قبضے اور آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ نے اعجاز کے نام پر سکھر اور روہڑی میں دو جائیدادیں بنا رکھی ہیں، لڈومین کے نام پر 11، آفتاب سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنا رکھی ہیں جبکہ خورشید شاہ نے مبینہ فن لینڈ کے لئے ہسپتال سے منسلک ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لئے الاٹ کرائی ہے، نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں ایک شخص عمر جان کا بھی اہم کردار ہے۔
خورشید شاہ اپنے خلاف الزامات کو کئی مواقع پر جھٹلاتے رہے ہیں، الٹا نیب کو خبردار کر چکے ہیں کہ ان کی گرفتاری نیب کے لئے مشکل لائے گی۔ 2016 میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے خورشید شاہ کے خلاف نیب کیسز سے متعلق میڈیا کو آگاہ کیا تھا۔ خورشید شاہ کو نیب راولپنڈی منتقل کر دیا گیا ہے۔ آج انھیں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا اور وہاں سے ان کا راہداری ریمانڈ لے کر سکھر منتقل کر دیا جائے گا۔ خورشید شاہ کو آج نیب سکھر میں طلب بھی کیا گیا تھا مگر انھوں نے سکھر میں پیش ہونے سے معذرت کر لی۔
اس حوالے سے دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی اختیار کھوکھر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے خورشید شاہ کو 3 بار نوٹس بھیجے تھے لیکن وہ ایک بار بھی پیش نہیں ہوئے۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس خورشید شاہ کی گرفتاری کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا، خورشید شاہ کے خلاف بہت مواد جمع ہو گیا ہے ان کے لئے سوالنامہ تیار کیا گیا ہے، خورشید شاہ سے تفتیش ضروری ہے۔ اختیار کھوکھر نے بتایا کہ اس کیس میں ایک اور اہم نام پیلاج مل کا ہے جو ان کا سب سے بڑا دوست ہے اور اس کے نام پر 85 جائیدادیں ہیں، خورشید شاہ کے ایک کزن نصراللہ بلوچ کے خلاف ایک ریفرنس بھی زیر سماعت ہے نیب نے سندھ کے ڈی سی صاحبان سے ان افراد کے نام تمام جائیدودوں کی تفصیل طلب کی ہے۔
میزبان کے مطابق پیپلز پاٹی کے لئے ایک مشکل وقت ہے، میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق پاکستان جیسے ملک میں میڈیا آزاد ہونے کے باوجود پابندیوں میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے، نازک اور پیچیدہ صورتحال کے پیش نظر تحریک انصاف کی حکومت نے میڈیا کے احتساب اور تنازعات سے نمٹنے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد پیمرا اور دیگر عدالتوں میں میڈیا سے متعلق زیر سماعت مقدمات سپیشل ٹربیونلز کو منتقل ہو جائیں گے، یہ اعلان منظر عام پر آنے کے بعد آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے ٹربیونلز بنانے کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں درج ہے کہ اسلام، پاکستان، ملکی سالمیت، دفاع، توہین عدالت، امن عامہ اور دوست ممالک سے متعلق عائد پابندیوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہر شہری کے لئے آزادی خیال،آزادی اظہاراور تنقید کی آزادی کی اجازت ہوگی یعنی آئین پاکستان آزادی اظہار ضرور فراہم کرتا ہے لیکن اس کے لئے کئی حدود و قیود بھی موجود ہیں۔
اس حوالے سے سینئر صحافی عامر احمد خان نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی ضرورت نہیں بلکہ خواہش ہے، یہ نئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کے لئے ہر قانون پہلے سے موجود ہے، اب اگر سپیشل عدالتوں کے بنانے کا فیصلہ ہوا ہے تو ظاہر ہے حکومت کی نیت کوئی اور ہے۔ میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق بچے اور بچیوں کے اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کے دردناک واقعات نے پاکستانیوں کو ایک بار پھر سوگوار کر دیا ہے اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، چونیاں میں تین لاپتہ بچوں کی لاشیں ملی ہیں، چونیاں میں دن بھر حالات کشیدہ رہے اور نظام زندگی مکمل مفلوج رہا مشتعل افراد نے ٹائر جلا کر تھانے کا گھیراؤ کیا، پنجاب حکومت اور پولیس کے خلاف نعرے لگائے، یہ بڑی شرمناک بات ہے کہ 2015 میں 270 بچے اور بچیوں سے زیادتی اور جنسی جرائم کا انکشاف ہوا تھا، 2017 میں رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 3445 تھی یعنی سال 2018 میں ہر روز 10 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے، ایسے کیسز پنجاب میں سب سے زیادہ 2403 رپورٹ ہوئے، سندھ میں 1012 کے پی 145 بلوچستان میں 38 اور اسلام آباد میں 130 رپورٹ ہوئے، وزیر اعظم عمران خان نے نے قصور کے واقعہ پر ہر ذمہ دار کے احتساب کا عندیہ دیا ہے۔
دنیا نیوز کے نمائندے حسن رضا نے پروگرام میں بتایا ہے کہ جن لوگوں کے بچے اغوا ہوئے انہیں کہا جاتا کہ بچوں کو درباروں سے ڈھونڈیں اور پھر ہمیں بتا دیں۔ وہی معاملات ہیں جو گزشتہ سال تھے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے وزیر اعظم کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔