لاہور: (محمد حسن رضا، عمر جاوید سے) پولیس اصلاحات کے مسودے پر پنجاب بیورو کریسی ڈی ایم جی اور پولیس کے اعلیٰ افسران آمنے سامنے آگئے، سول سیکرٹریٹ کے ہنگامی اعلیٰ سطحی اجلاس میں دونوں طرف سے تلخ کلامی کے بعد ایک دوسرے کو مبینہ طور پر دھمکیاں دی گئیں، بیوروکریسی نے واضح کر دیا کہ اب مسودہ تیار ہو چکا اب ہر صورت عملدآمد ہوگا، پولیس کا موقف تھا کوشش کر کے دیکھ لیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا، معاملات کھل کر سامنے آجائیں گے، انہوں نے نوکریاں چھوڑنے کی دھمکیاں بھی دیدیں۔
اجلاس میں صوبائی وزرا دونوں گروپوں کے افسروں میں صلح کروانے کی کوشش کرتے رہے، تین گھنٹے سے زائد ہونیوالا اجلاس بے نتیجہ رہا، ذرائع کے مطابق پولیس نے واضح کر دیا بیوروکریسی پولیس کو کام ہی نہیں کرنے دیتی، بتایا جائے جو پولیس آرڈر میں اقدامات تھے وہ کیوں نہیں کئے، کیوں پولیس کے کاموں میں مداخلت کی جاتی ہے، بیوروکریسی کی جانب سے کہا گیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پولیس مکمل آزاد ہو، جو قانون بنائے گئے یہ اوپر سے احکامات ملے، اجلاس میں موجود بعض پولیس افسران نے کہا ہر بار کمیٹی کمیٹی کا کھیل کھیل کر معاملات کو دبا دیا جاتا ہے، اگر اب ایسا کیا تو ہم پولیس سروس چھوڑ کر چلے جائیں گے پھر کہاں سے افسر لائیں گے، پولیس کے نظام کو بہتر نظام بنایا جائے ہم کسی کی غلامی میں نہیں آئیں گے۔
بیوروکریسی نے کہا کہ یہ سب میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے تجاویز تیار کی ہیں اور یہ بہت بہتر ہیں، ان کی ابتدائی منظوری وزیراعظم عمران خان دے چکے ہیں، وزیر قانون راجہ بشارت کی زیر صدارت ہنگامی طور پر اجلاس میں صوبائی وزرا انصر مجید، تیمور بھٹی، ہاشم ڈوگر، چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب سید علی مرتضیٰ، سیکرٹری آبپاشی سیف انجم، سیکرٹری بلدیات جاوید قاضی، آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ضعیم شیخ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر، ڈی آئی جی آئی ٹی ذوالفقار حمید، ڈی آئی جی احسن یونس، ڈی آئی جی جواد ڈوگر سمیت ریٹائرڈ پولیس افسران بھی موجود تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس افسروں نے بیوروکریسی کی تجاویز ماننے سے صاف انکار کر دیا اور ڈی ایم جی افسران اور پولیس افسران میں اختیارات کی جنگ پر سخت تلخ کلامی بھی ہوئی، پولیس کی جانب سے کچھ تجاویز پیش کی گئیں۔
ان میں کہا گیا کہ سپیشل برانچ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے ماتحت دینے کے بجائے آئی جی پنجاب کے ماتحت ہی کیا جائے لیکن جو ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے اس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جیسے انٹیلی جنس بیورو کا سربراہ وزیراعظم ہے اسی طرح سپیشل برانچ کا سربراہ وزیراعلیٰ ہو گا، لیکن اس پر بیورو کریسی کو شدید اختلافات ہیں، دوسرا پوائنٹ یہ سامنے آیا ہے کہ پولیس کمپلینٹ کمیشن محکمہ داخلہ پنجاب یا سی ایم سیکرٹریٹ کے بجائے پنجاب کی امن و امان کی کیبنٹ کمیٹی کے ماتحت کیا جائے، جبکہ نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کو ایکٹو کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیا جائے، جبکہ پنجاب پولیس کا الگ سے کنٹرول انسپکٹوریٹ بنانے پر بھی اختلاف کیا گیا ہے، بیوروکریسی کی جانب سے مسلسل ان معاملات کی مخالفت کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں سید علی مرتضیٰ اور ایک صوبائی وزیر کی جانب سے کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے یہ انتہائی خفیہ ڈرافٹ میڈیا کے ساتھ شیئر کیا گیا یہ بات درست نہیں ہے، جس پر پولیس افسران سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ آپ ہم پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈرافٹ سے متعلق محکمہ داخلہ پنجاب کے افسران پہلے ہی میڈیا کو آگاہ کر چکے تھے اور جب تحقیقات کی گئیں تو وزارت داخلہ سمیت وفاق میں موجود اعلیٰ ذرائع سے یہ ڈرافٹ میڈیا نے حاصل کیا، جس کی تصدیق متعلقہ محکموں کی جانب سے کی گئی۔ اس حوالے سے ایک سینئر بیوروکریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اجلاس میں کوشش کی گئی کہ پولیس کو ایک دفعہ چپ کروایا جائے اور ہم نے اس حوالے سے صوبائی وزرا کو بھی اعتماد میں لیا ہے، وفاق سے حکم ہے کہ ہر صورت یہی مسودہ منظور ہوگا اور اسی پر عملدآمد ہو گا، ایک دوسرے کو دھمکیاں دی گئی ہیں کہ ہم ہر صورت عملدآمد کروائیں گے۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے روزنامہ دنیاسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں پولیس کے اعتراضات کو سامنے رکھا گیا ہے، بہت سارے معاملات حل ہو چکے ہیں اور تحفظات کو ختم کیا جا رہا ہے ،جبکہ دوسرا اجلاس اسی حوالے سے آج سول سیکرٹریٹ میں ہوگا، جس میں معاملات کو اتفاق رائے سے حل کر لیا جائے گا۔