لاہور: ( تجزیہ:سلمان غنی) بالآخر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے نجات کیلئے 27 اکتوبر کو اسلام آباد کیلئے احتجاجی مارچ کا اعلان کردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر مارچ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہوئی تو پھر سکیم نمبر ون کے بعد دو اور تین پر عمل درآمد ہوگا، حکومت کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں ہوگی، ان کو جانا ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ میں شرکت کیلئے مشاورت شروع کر رکھی ہے۔ مسلم لیگ ن مارچ کی حمایت کا اصولی فیصلہ کر چکی ہے مگر حتمی اعلان کیلئے اگلے دو تین روز میں اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر رکھا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے کسی فیصلہ کیلئے آئندہ ہفتہ کور کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے حوالے سے دو آرا نہیں میاں نواز شریف کے مؤقف کے حامی کھلے طور پر احتجاجی مارچ کے حمایتی تھے جبکہ پارٹی میں میاں شہباز شریف اور بعض سابق وزرا تحفظات کے باوجود فیصلوں کے حوالے سے نواز شریف کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ذمہ دار ذرائع یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمارا بڑا مسئلہ جمہوری سسٹم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ حالات اس نہج تک نہیں جانا چاہئیں کہ جمہوری سسٹم ہی سمٹ جائے۔ جہاں تک بلاول بھٹو کا سوال ہے تو وہ احتجاج کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں البتہ دھرنا میں شمولیت کا فیصلہ وہ بہت سوچ سمجھ کر کریں گے جو بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ مارچ کی تیاریوں اور اس کے انتظامات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مارچ سے قبل کوئی بڑا اقدام یا پکڑ دھکڑ شروع نہیں ہوتی یا سیاسی معاملہ طے نہیں پاتا تو پھر مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو اسلام آباد پہنچنے سے نہیں روکا جا سکے گا۔
منتخب حکومت کا بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ و ہ ڈیڈ لاک کو ڈائیلاگ میں تبدیل کرنے کو تیار نہیں، دوسری جانب بعض غیرسیاسی قوتیں جنہیں ملکی مفادات اور خصوصاً اسلام آباد کی حفاظت عزیز ہے، وہ یہاں ایسا کوئی عمل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں جو دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث ہو، وہ پریشان ضرور ہیں اور وہ اپنے انداز میں مارچ، اس کی اہمیت اور تیاریوں کے حوالے سے تفصیلات جمع کر رہی ہیں کیونکہ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ منتخب حکومت شاید مارچ کا مقابلہ نہ کر سکے اور بالآخر انہیں فورسز کو آگے آنا پڑے جو ایسی کسی صورتحال میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس تشویش کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہیں کہ اگر اسلام آباد پر چڑھائی اور دھرنا سیاست کے نتیجہ میں منتخب حکومتوں کو گرانے اور ہٹانے کا سلسلہ چل نکلا تو ملک میں سیاست اور جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا۔
لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ خود موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے کارکن اسلام آباد مارچ اور اداروں پر حملہ آور ہونے کی روایات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کو روکنے کا کوئی سیاسی جواز نہیں اب دیکھنا یہ پڑے گا کہ اس ایشو پر بھی وزیراعظم یوٹرن لیکر احتجاجی دھرنا کوروکتے ہیں یا اس کے مقابلہ کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ ایک بات تو کہی جا سکتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا احتجاجی مارچ کسی خطرے سے خالی نہیں ، اگر بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس کا حصہ بنتی ہیں تو پھر حکومت کو پسپائی اختیار کرنا ہوگی۔ جہاں تک پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ میں شرکت کیلئے پختونخوا سے کسی کو نہ جانے دینے کے اعلان کا تعلق ہے تو یہ ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اور وہ احتجاجی مارچ کا سیاست سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔