اسلام آباد: (طارق عزیز) مسلم لیگ (ن) جے یو آئی کے آزادی مارچ میں شرکت پر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے، پارٹی صدر شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا تنویر حسین،احسن اقبال نے جے یو آئی کے آزادی مارچ، لاک ڈاؤن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں محاذ آرائی کی صورتحال سے گریز کرتے ہوئے پارلیمنٹ تک اپنی سیاست محدود کرنا چاہئے۔
شہباز شریف اور دیگر سینئر رہنماؤں نے سوال اٹھایا کہ آزادی مارچ اور لاک ڈائون ناکام ہوگیا تو اپوزیشن کہاں کھڑی ہوگی ؟ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی میں ناکامی کی مثال ہمارے سامنے ہے، مسلم لیگ ن کو ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو محاذ آرائی سے بچانا اور جمہوری و پارلیمانی نظام چلنے میں مدد فراہم کرنی چاہئے جبکہ سینیٹر مشاہد اللہ خان سمیت نوجوان پارلیمنٹرینز گروپ جنہیں مریم کی ٹیم سمجھا جاتا ہے، انہوں نے سینئرز کی رائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مولانا فضل الرحمان کا ہر صورت ساتھ دینا چاہئے، جیسا کہ میاں نواز شریف ہدایت کر چکے ہیں، بیک آؤٹ کرنے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
میاں جاوید لطیف، میاں منان، مرتضیٰ جاوید عباسی، نور الحسن تنویر، محمد زبیر نے برملا اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مصلحت کی سیاست سے پہلے ہی نقصان اٹھا چکے ہیں، مشاہد اللہ خان اور مرتضیٰ جاوید عباسی نے استفسار کیا کہ اگر قیادت نہ نکلی اور کارکنوں نے آزادی مارچ میں شمولیت اختیار کر لی تو ن لیگ کہاں کھڑی ہوگی ؟ ذرائع کے مطابق خواجہ آصف نے موقف اختیار کیا کہ ہمیں مذہبی کارڈ استعمال نہیں کرنا چاہئے، مولانا فضل الرحمان کی چھتری تلے احتجاج مذہبی رجعت پسندی کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ہمیں جے یو آئی یا پیپلزپارٹی سے الگ ن لیگ کے پلیٹ فارم سے حکومت کیخلاف تحریک شروع کرنی چاہئے۔
پارٹی کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے پارٹی صدر شہباز شریف کی ہدایت پر لاہور میں جے یو آئی وفد سے ہونیوالی ملاقات کے متعلق بریفنگ دی، انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں ڈینگی سے ہزاروں افراد متاثر ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں، اس صورتحال میں پنجاب سے اسلام آباد میں کارکنوں کو لانا مشکل ہوگا، اس لئے آزادی مارچ کو نومبر تک لے جانا چاہئے، احسن اقبال نے بتایا کہ یہی تجویز ہم نے مولانا فضل الرحمان کو دی ہے اور اے پی سی میں بھی یہی موقف رکھیں گے، سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جے یو آئی مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر رہی، مولانا فضل الرحمان سیاسی بات کر رہے ہیں، وہ حکومت کی ناکامی اور انتخابی دھاندلی کو بنیاد بنا کر مارچ کر رہے ہیں اس لئے یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مذہبی کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق پارٹی صدر شہباز شریف نے خود لانگ مارچ اور آزادی مارچ کیخلاف موقف اختیار کیا، آزادی مارچ کے التواء کے حق میں دلائل دیئے۔ انہوں نے مارشل لاء کے خدشہ کا بھی اظہار کیا جس کے جواب میں ہارڈ لائنر گروپ نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے لئے پہلے ہی مارشل لاء ہے، ہمیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں، لیڈر شپ جیل میں ہے، ن لیگ میڈیا سے مکمل طور پر بلیک آؤٹ ہے، ہمیں کسی دباؤ یا مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے واضح اور بولڈ لائن لینی چاہئے، باہر نکلنے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں البتہ وقت کے تعین اور طریقہ کار پر مشاورت ہوسکتی ہے لیکن مارچ میں شرکت نہ کرنا ن لیگ کے لئے سیاسی موت ہوگی۔