لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے اسلام آباد زبردست سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جہاں دوحہ سے آنے والا طالبان کمیشن سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتوں میں اس امر کی واضح یقین دہانی کرا چکا ہے کہ ہم افغانستان میں امن کیلئے مذاکراتی عمل کی بحالی کے خواہاں ہیں اور معاملات آگے کی جانب بڑھنے چاہئیں اور افغانستان بارے امریکی حکومت کے نمائندہ زلمے خلیل زاد کی اسلام آباد موجودگی بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکہ مذاکراتی عمل کا خواہاں ہے اور اب گیند خود امریکی کورٹ میں ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے آنے والے سگنل کے بعد کب مذاکرات کی بحالی کا اعلان کرتا ہے۔ طالبان کی یقین دہانی کے بعد باضابطہ بحالی کا اعلان امریکی صدر ٹرمپ کو کرنا ہے۔
مذاکراتی عمل کی بحالی کے حوالے سے اہم بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ وہ تحفظات جنہیں بنیاد بنا کر صدر ٹرمپ نے افغان امن معاہدہ کے فیصلہ کن مرحلہ پر اسے توڑنے کا اعلان کیا تھا کیا وہ دور ہو گئے ہیں اور یہ کہ طالبان انہیں شرائط پر کاربند ہیں، جو زلمے خلیل زاد کے ساتھ ان کے نو مذاکراتی عمل میں طے ہوئی تھیں۔ مذکورہ ایشو سے منسلک ہمارے خارجہ ذمہ داران افغان امن عمل میں بحالی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کو اہم قرار دے رہے ہیں جہاں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ وہاں امریکی صدر کو باور کرایا کہ افغان امن عمل یقینی بنائے بغیر ملک میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔ اور افغانستان میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا اور افغانستان میں امن کو ہم خود اپنے استحکام کیلئے بھی ضروری سمجھتے ہیں جس پر صدر ٹرمپ نے انہیں اس حوالے سے پاکستان کی کوششوں اور کاوشوں کے باعث طالبان دوحہ سے اسلام آباد آنے اور اسلام آباد میں حکومتی ذمہ داران اور خصوصاً وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اپنی ملاقات میں انہوں نے مذاکراتی عمل کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے افغانستان میں امن کے حوالے سے ضروری سمجھتے ہیں۔
بعد ازاں افغانستان پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی طالبان کمیشن کی تفصیلی ملاقات ہوئی ہے اور دونوں جانب سے اسی سپرٹ کا مظاہرہ ہوا جس کے تحت مذاکرات کے نو ادوار مکمل ہونے کے بعد معاہدہ طے پایا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے بعض تحفظات کی بنیاد پر مذاکراتی عمل توڑنے کا اعلان کیا تھا لہٰذا زلمے خلیل زاد سے طالبان کمیشن کی ملاقات کے بعد اس امر کا قوی امکان ہے کہ اب امریکہ مذاکراتی عمل کی بحالی کے ساتھ معاہدہ پر دستخطوں کا اعلان کر دے۔ اس سے یقینا صدر ٹرمپ اپنے مفادات اور ترجیحات میں سرخرو ہوں گے جس کا انہوں نے خود اپنے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے اور خود مغربی میڈیا رپورٹس بھی یہ ظاہر کرتی ہیں کہ صدر ٹرمپ نے طالبان سے مذاکراتی عمل توڑنے کا اعلان پینٹاگان کی طرف سے آنے والے دباؤ کے بعد کیا تھا اور طالبان کا اس پر یہ کہنا تھا کہ ہمارے اور امریکہ کے درمیان فائر بندی اور جنگ بندی کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا جس کی ہم نے خلاف ورزی کی لہٰذا نئے حالات اور خصوصاً امریکی انتخابات کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر صدر ٹرمپ نے معاہدہ میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں کو امریکی تائید حاصل ہے، لہٰذا آنے والے چند روز افغان امن عمل کی بحالی اور امریکہ طالبان معاہدہ کے حوالے سے اہم ہیں۔
البتہ افغانستان کی کٹھ پتلی افغان حکومت کو اسلام آباد میں جاری افغان امن کیلئے سرگرمیاں ہضم نہیں ہو پا رہیں اور وہ حسب روایت الزام تراشی کے ذریعے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے طالبان کیلئے اسلام آباد میں پروٹوکول کا الزام اس کا ثبوت ہے۔ اشرف غنی انتظامیہ کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ طالبان مذاکراتی عمل میں امریکہ نے انہیں اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا اور اس مذاکراتی عمل کے بعد خود اشرف غنی اور ان کی انتظامیہ کی حیثیت، اہمیت بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے اور 28 ستمبر کے انتخابات میں بھی مطلوبہ نتائج نہ آنے سے ان پر پریشانی طاری ہے۔ البتہ یہ سوال امریکہ طالبان مذاکراتی عمل اور معاہدے کے حوالے سے اہم ہے کہ اس کے بعد افغان صدر کے انتخابات کی اہمیت کیا ہوگی۔ جس پر دونوں کو ملکر سوچنا پڑے گا اسلام آباد کے سفارتی حلقے ایک طرف تو اسلام آباد کے افغان امن کے حوالے سے کردار کو سراہتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود امریکی مفاد میں افغان امن عمل میں اسلام آباد کا کردار اہم ہے تو پھر واشنگٹن اس خطے کے اہم اور سلگتے ایشو، کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کو کیوں تیار نہیں۔ کیونکہ کیا ایسا ممکن ہو پائے گا کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور کشمیر دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہو۔ لہٰذا طالبان کی اسلام آباد آمد کا جہاں یہ فائدہ ہوا ہے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے وہاں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے لئے یہ سوال کھڑا ہے کہ کشمیر کی صورتحال پر پا کستان باقاعدہ ایک فریق ہے اور خود صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا شدہ صورتحال پر تشویش بھی ظاہر کرتے ہیں، لیکن وہ کشمیر کے حوالے سے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کو کیوں تیار نہیں۔