لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) پاکستان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر افغان امن عمل کے حوالے سے کوششوں کا آغاز ہو رہا ہے جس کے تحت طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں اسلام آباد پہنچ چکا ہے جبکہ افغانستان کے بارے میں امریکی خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد پہلے سے یہاں موجود ہیں۔ اعلیٰ سطح کے سفارتی حلقے طالبان وفد کے دورہ اسلام آباد کو افغان امن عمل کی بحالی کے حوالے سے مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں، طالبان وفد کی زلمے خلیل زاد اور پاکستان کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتوں میں بنیادی سوال یہ ہوگا کہ آخر کون سی وجوہات تھیں جس بناء پر امریکی صدر ٹرمپ نے ستمبر کے آخری ہفتے میں امریکا طالبان مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کا باقاعدہ اعلان کرنے کے بجائے معاہدہ اور مذاکرات مؤخر کرنے کا اعلان کیا جس سے نو ماہ سے جاری مذاکراتی عمل مجروح ہو کر رہ گیا۔
دوسری اہم بات یہ ہو گی کہ کیا واقعتاً جن تحفظات کی بنا پر امریکی صدر نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا وہ ختم ہو چکے ہیں اور تیسرا یہ کہ مذاکرات کے نتیجہ میں جو شرائط طے پا چکی ہیں ان پر دوبارہ غور شروع ہوگا یا طے شدہ امور سے آگے کی بات ہوگی ؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی معطلی کا جواز کابل دھماکے کو بنایا تھا لیکن مذاکراتی عمل پر گہری نظر رکھنے والے یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ صرف کابل دھماکا مذاکرات اور معاہدے کے خاتمہ کی وجہ ہو سکتا ہے اس کے پیچھے کچھ اور ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ باتیں کھلنے لگیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے افغان امن عمل کی نتیجہ خیزی میں بہتری پر پنٹاگان خوش نہیں تھا اور امریکا میں عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد فوج کے نئے سربراہ نے بھی طالبان کو ہر طرح کا فری ہینڈ دینے کی مخالفت کی تھی۔
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو بھی معاہدے کے اعلان پر تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ معاہدہ پر دستخطوں پر مصر رہے۔ یہاں تک کہ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان جونسن کو بھی اس ممکنہ معاہدے پر قربان ہونا پڑا اور اس سارے عمل کے بعد امریکی صدر نے بھی یوٹرن لیا اور مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا اس کے ساتھ ہی افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی آگ میں جلتا نظر آنے لگا۔ طالبان نے مذاکراتی عمل کی معطلی پر دفاعی پوزیشن لینے کے بجائے جارحانہ طرز عمل اختیار کیا اور ان کے ترجمان ذبیع اﷲ مجاہد یہ کہتے نظر آئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکراتی سلسلہ ختم کیا اس کا غیر معمولی نقصان بھی انہیں ہوگا۔ البتہ ہم مستقبل میں بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔
نئی صورتحال میں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد ، افغان امن عمل کے حوالے سے اہم بن رہا ہے اس کی بڑی وجہ وہی ہے کہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن کو اپنے استحکام کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے سیاسی مستقبل اور امریکی انتخابات کے حوالے سے آنے والے دو تین ماہ اہم ہیں اور وہ ہر قیمت پر آنے والے ان دو تین ماہ میں ہی امریکا طالبان معاہدہ اور اس کے نتیجہ میں امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں اور اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہو کر اسے اپنی انتخابی مہم کا بڑا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خود ٹویٹ کے ذریعہ مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کرنے والے امریکی صدر ایک مرتبہ پھر معاہدے اور مذاکرات کیلئے سرگرم ہیں ۔مذاکراتی عمل کی بحالی کی صورت میں طالبان نمائندوں کی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوگی۔