دوحہ: (ویب ڈیسک) طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ امریکا معاہدہ جلد چاہتا ہے تو تھوڑی سی لچک دکھا دے تو فوراً امن معاہدہ ہو سکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان میں موجود فوج کے انخلا کے معاملے پر تھوڑی سی اور لچک دکھا دے تو معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی امریکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کا معاملہ طے ہو گا، طالبان معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ قطر میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان نواں امن مذاکرات جاری ہیں۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے لیڈر ملا برادر مذاکرات میں اپنے وفود کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
سہیل شاہین کے مطابق مذاکرات میں معاہدے کے عمل درآمد کے طریقۂ کار پر بات چیت ہو رہی ہے جس میں امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا اور اس کے ٹائم فریم کی شرط انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ امریکی افواج کب نکنا شروع ہوں گی؟ کتنے فوجی کن اڈوں سے نکلیں گے؟ اور فوجیوں کا مکمل انخلا کب تک ممکن ہو گا؟ یہ سوال ہیں جن کا جواب ہمارے لیے جاننا بہت اہم ہے۔
طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں فریق ان نکات پر قیادت سے مشاورت کے بعد دوبارہ مذاکرات کے لیے قطر کے شہر دوحہ میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ ہے جس پر مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں تو انہوں نے پر امید لہجے میں معاہدے کی جلد منظوری کی توقع ظاہرکی۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی 19 سالہ طویل جدوجہد کا مقصد افغانستان میں غیر ملکیوں کے قبضے کو ختم کرنا ہے اور مذاکرات میں امریکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن پر بات ہو رہی ہے۔
سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کے نفاذ کے بعد طالبان یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی عسکری گروپ افغانستان کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔
داعش کے متعلق سوال کے پر ان کا کہنا تھا کہ طالبان، داعش کیساتھ مسلسل لڑ رہے ہیں۔ ہم نے داعش کو پیچھے دھکیلا ہے اور اب وہ افغانستان کی مشرقی سرحدوں تک محدود ہے۔ افغانستان کا جو 70 فیصد حصہ انکے قبضے میں ہے وہاں داعش موجود نہیں۔ یہاں داعش کی موجودگی اس درجے کی نہیں جیسی شام میں ہے۔ افغانستان کا صرف 30 فیصد حصہ افغان حکومت کے قبضے میں ہے جس میں کابل اور دیگر صوبوں کے دارالحکومت شامل ہیں۔‘
طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ ہونے کے بعد افغان حکومت کے ساتھ بات چیت شروع ہو سکتی جس کا ایک اہم نقطہ افغانستان میں اسلامی نظام کا قیام ہو گا۔ ہم افغان حکومت کے ساتھ بات کریں گے کہ کیسا اسلامی نظام افغانستان میں ممکن ہے۔
طالبان قیادت کے داعش میں شمولیت کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان فائٹرز اور قیادت میں اختلافات ممکن نہیں۔ امن مخالف عناصر ایسی خبریں پھیلا رہے ہیں۔ تمام اراکین ہماری لیڈر شپ کا حکم مانتے ہیں۔ ہمارے سارے گورنر لیڈرشپ کے ایک آرڈر پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔