لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی، آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر پہلے بھی ڈٹا تھا اب بھی اس نعرے پر قائم ہوں۔ نواز شریف کے اس واضح بیان اور اعلان کے بعد بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن میں سے احتجاجی مارچ کے حوالے سے کنفیوژن کا خاتمہ ہو سکے گا ؟ اور مسلم لیگ ن کس حد تک احتجاجی مارچ میں شریک ہوگی ؟ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی احتجاجی اور آزادی مارچ کی حمایت کیا ظاہر کر رہی ہے ؟ کیا حکومت دباؤ میں آئے گی؟ اور اپوزیشن کے دباؤ کا مقابلہ کر پائے گی؟۔
جہاں تک ن لیگ کی کنفیوژن کی صورتحال میں میاں نواز شریف کے اعلان کا تعلق ہے تو ن لیگ کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس جماعت میں حتمی پالیسی اور فیصلوں کا اختیار ہمیشہ نواز شریف کو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی کسی بھی فیصلہ پر مشاورت ضرور کی جاتی رہی ہے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ پر ن لیگ میں پیدا شدہ صورتحال کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے صدر شہباز شریف سمیت بعض سینئر اراکین کی رائے یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ میں شرکت کے بڑے فیصلے پر مارچ کے اغراض مقاصد، حکمت عملی اور تاریخ کے تعین پر انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا کیونکہ ن لیگ کے رہنما احتجاجی دھرنے کے حوالے سے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کسی ایک روز کیلئے احتجاجی جلسہ میں شرکت پر آمادگی ظاہر کرتے نظر آتے تھے۔
پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ سمیت دو اعلیٰ سطح کے مشاورتی اجلاسوں میں احتجاجی مارچ کے مقاصد اور حکمت عملی پر تبادلہ خیال ضرور ہوا مگر دو آراء نمایاں رہی جس میں غالب اکثریت میاں نواز شریف کی رائے سے متفق تھی کہ حکومتی کارکردگی کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اس میں خاموشی اختیار کرنا درست نہیں اور دوسرا نہ تو ان کی لیڈر شپ کو عدلیہ سے انصاف مل رہا ہے اور دوسرا خود حکومت بھی انہیں بری طرح ٹارگٹ کئے ہوئے ہے ۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے۔ بجائے اس بات کے کہ حکومت انہیں دیوار سے لگا دے سب کو مل کر حکومت کو دیوار سے لگانا چاہیے۔ جبکہ دوسری رائے کے حامل حکومتی کارکردگی پر تو رد عمل کے حامی تھے، لیکن مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے بارے میں ان کے تحفظات تھے کہ ان کے مقاصد واضح نہیں اور یہ احتجاجی دھرنا جمہوریت اور جمہوری عمل کیلئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے، لیکن صورتحال کے باوجود دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنی احتجاجی اور آزادی مارچ کے حوالے سے پہلے روز سے ہی یہ کہتے نظر آ رہے تھے کہ بالآخر انہیں دونوں بڑی جماعتیں بھی حمایت کریں گی خصوصاً میاں نواز شریف کے حوالے سے تو وہ اور ان کے ساتھی دھڑلے کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف ہمارے احتجاجی مارچ کے ساتھ ہیں۔
دوسری جانب میاں نواز شریف کی چودھری شوگر ملز کے کیس میں گرفتاری اور ریمانڈ کیلئے احتساب عدالت آمد پر ان کے واضح اور کھلے اعلان نے یہ تو واضح کر دیا کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے ساتھ ہیں، لیکن یہ سوال ابھی کھڑا ہے کہ جماعت کے اندر کنفیوژن اور خصوصاً شہباز شریف کے تحفظات دور ہو پائیں گے۔ ن لیگ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو کسی بھی بڑے ایشو اور مرحلے پر شہباز شریف ہمیشہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، مگر فیصلہ وہی قرار پاتا ہے جو نواز شریف کا ہوتا ہے اور شہباز شریف کی یہ اعلیٰ ظرفی رہی ہے کہ وہ نواز شریف کے فیصلہ کی مکمل تائید کرتے نظر آتے رہے اور اب بھی غالب امکان یہی ہے کہ آج نواز شریف کے فیصلہ کی تائید تو ظاہر کریں گے لیکن وہ اس اجلاس میں بھی اپنے تحفظات ضرور ظاہر کریں گے تا کہ سب کچھ ریکارڈ پر رہے۔ کیونکہ گزشتہ روز بھی وہ یہ کہتے نظر ضرور آئے کہ میں اپنی سوچ اور اپروچ کا اظہار ضرور کروں گا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس سوچ اور اپروچ کے حامل بھی جماعت میں موجود ہیں۔ اکثریت نواز شریف کے نکتہ نظر کے حامل افراد کی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کیلئے کسی قسم کی لچک خود کو مزید عذاب میں ڈالنے کے مترادف ہوگی۔
جہاں تک ن لیگ کے احتجاجی مارچ میں شرکت کا سوال ہے تو یقیناً نواز شریف کی واضح حمایت کے بعد مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کی اہمیت و حیثیت میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ایک چیز واضح ہے کہ مسلم لیگ ن بڑی جماعت ہونے کے باوجود کوئی مزاحمتی تاریخ نہیں رکھتی۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بعد میاں نواز شریف کی حمایت کے اعلان سے خود مولانا فضل الرحمن اور ان کے احتجاجی مارچ کی عوامی و سیاسی سطح پر پذیرائی میں اضافہ ضرور کیا ہے۔ اب وہ زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو ٹارگٹ کرتے نظر آئیں گے۔ جہاں تک حکومت کے دباؤ میں آنے کا سوال ہے تو حکومتی وزراء کے بیانات سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ ان پر دھرنا کا بخار سوار ہے۔ البتہ خود وزیراعظم عمران خان دھرنا پر توجہ دینے یا اس کا نوٹس لینے کے بجائے بیرون ملک اپنے دوروں اور خصوصاً کشمیر پر سرگرمیوں میں متحرک نظر آتے ہیں اور خود حکومتی ذمہ داران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اسلام آباد، راولپنڈی میں اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین کا آنا ہمارے سے زیادہ حساس اداروں کا مسئلہ ہے۔ وہ خود اس حوالے سے اقدامات کریں گے۔ لیکن حکمران یہ بھول رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت کی کارکردگی بہتر ہوتی اور عوام کو حکومت کے ہاتھوں ریلیف ملتا تو آج ملک کے اندر اس حد تک بے یقینی، مایوسی اور بے چینی نہ ہوتی اور آگے بھی اس حکومت کے ذریعہ کسی ریلیف کا امکان نظر نہیں آ رہا، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ سے جو حکومت پر دباؤ کا سلسلہ شروع ہوگا وہ رکنے والا نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی احتجاجی روش کو اپناتے ہوئے احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کریں۔ جہاں تک احتجاجی مارچ کے حوالے سے عوامی حلقوں میں پذیرائی کا تعلق ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کی تو مکمل حمایت کرتے نظر نہیں آتے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، غربت پر حکومت کو کوستے دکھائی دیتے ہیں اور یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ان سے جتنی توقعات تھیں الٹا یہ حکومت ان پر عذاب بن کر اتری ہے۔ اور یہی وہ رجحان ہے جو حکومت کی مقبولیت پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حمایت کے بعد یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے عہدیداران اور کارکن احتجاجی مارچ میں عملاً شرکت کریں یا نہ کریں البتہ وہ اپنی اپنی سطح پر حکومت کے خلاف یکسوئی سے ضرور سرگرم نظر آئیں گے اور اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سیاسی حمایت کے بعد مولانا فضل الرحمن اپنے احتجاجی مارچ کے ذریعہ حکومت مخالف ماحول بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر بڑی سیاسی جماعتیں بھی بھرپور اور مکمل طور پر ان کی حمایت میں آ کھڑی ہوں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والے دن میں مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کے ذمہ داران دیگر اضلاع میں بھی بڑے اجتماعات منعقد کرتے نظر آ رہے ہیں اور اگر یہی ٹیمپو برقرار رہا تو مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ، حکومت کو دباؤ میں لانے میں کارگر بن سکے گا۔