اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ دیوانی مقدمات میں تاخیر کے معاملات کو ختم کرنا ہے، جج کے سپاٹ انسپکشن کے لیے بھی قانون میں ترمیم کی ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’’دنیا کامران خان کیساتھ‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی کی رپورٹ کی بجائے جج خود جا کر سپاٹ دیکھے گا تو شفافیت یقینی ہو گی، جج کو علم ہو گا کہ اپیلوں میں ہر طرح کی چیز چیک کی جاسکتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ دیوانی مقدمات میں اکثر سروس غلط آدمی کو کر دی جاتی ہے، برسوں مقدمہ چلنے کے بعد غلط سروس کے باعث مقدمہ واپس بھیج دیاجاتا ہے، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال نظامِ انصاف میں کیا جائے گا، جدید ڈیوائسز واٹس اپ، فنگر پرنٹس سی ڈی آر کو قانون میں ڈالا جارہا ہے۔
محمد فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سول پروسیجر کوڈ میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، دیوانی مقدمات کو بیک وقت دو بینچز میں سنا جائے گا، ایک عدالت سے اگر حکم امتناعی ہوجائے تو دوسرا بینچ کیس سنتا رہے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی وسل بلور کا تصور متعارف کرایا جارہا ہے، وسل بلور کی شناخت کو راز میں رکھا جائے گا انعام دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ نادرا کو بااختیار بنارہے ہیں، بزنس مین کو تحفظ کے معاملے میں تھوڑا وقت لگے گا، نیب ترامیم کیلئے آرڈیننس کے بجائے قانون سازی چاہتے ہیں، کوشش ہے قانون سازی کیلئے اپوزیشن مان جائے اپوزیشن 25 سے 30 چیزوں میں ترامیم چاہتی ہے، نیب کو غیر فعال نہیں کرنا نہیں چاہتے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ججوں کی تعیناتی خصوصاً نیب میں تعیناتی بڑا چیلنج ہے، کوشش ہے ایسے جج تعینات ہوں جن پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں، ایک نیب کی عدالت کا نوٹی فکیشن تقریبا فائنل ہو گیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کمی کا معاملہ بھی اپوزیشن کے باعث تاخیر کا شکار ہے، سینیٹ میں اپوزیشن نے اچانک ججز تقرری بل کی مخالفت کردی تھی۔
پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی اسٹے لے لیتا ہے توانصاف لینے میں پندرہ سال لگ جاتے ہیں۔ لوئرجوڈیشیری میں کرپشن کی شکایات ہیں، اعلیٰ عدلیہ میں بہت ایماندار کورٹ ہے۔ سول پروسیجرقانون انگریزنے بنایا تھا، دیوانی مقدمات میں انصاف کے لیے بہت دیرلگتی ہے۔