لاہور: (محمد حسن رضا سے ) آزادی مارچ نے 2 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے عہدیداروں اور رہنماؤں میں شدید اختلافات پیدا کر دئیے، جس سے پارٹی میں واضح تقسیم ہوگئی جبکہ مولانا فضل الرحمن نے نواز شریف کے خط پر عملدرآمد کے بجائے پہلے ہی نواز شریف کو پیغام بھجوا دیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نومبر کے پہلے ہفتے میں ہی اہم اعلانات کئے جائیں گے اور دھرنا دیدیا جائے گا جس کے بعد مولانا فضل الرحمن کو بعض افراد نے مکمل سپورٹ کی یقین دہانی بھی کروا دی تھی لیکن شہباز شریف اس بات پر نواز شریف کو منا چکے تھے کہ صرف ایک دن ہی ن لیگ مولانا کے ساتھ کھڑی ہوگی اور جلسہ کیا جائے گا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کسی صورت نہیں چاہتے ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ اس حوالے سے گزشتہ روز شہباز شریف کی پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات ہوئی تو اس میں بھی یہ بات واضح کی گئی کہ وہ نواز شریف سے ہدایت لے چکے ہیں کہ مولانا کے ساتھ ایک دن کا وعدہ کیا تھا اس کے مطابق ان کے ساتھ جلسے میں شریک رہے ہیں لیکن اب ہمیں ملتان، کراچی، لاہور سمیت ملک بھر میں بڑے جلسے منعقد کرنے چاہئیں۔ پھر دسمبر کے آخری ہفتے یا جنوری کے پہلے ہفتے دوبارہ اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہوگا جس سے مولانا کو بھی آگاہ کردیا گیا لیکن مولانا اس پر راضی نہیں ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کی حکومت آجاتی ہے تو پھر کوئی اور کھڑا ہو جائے گا، دھرنا اور احتجاج کرنے اس لئے سب کچھ دیکھنا ہوگا۔ یہ بھی اسی اجلاس میں بات ہوئی کہ ہمیں ساتھ ملکر چلنا چاہیے اس وقت بہت سی پریشانیاں ہیں، ان کے حل کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے لائحہ عمل کے مطابق آگے چلنا ہوگا۔ لیکن مسلم لیگ ن کے ہی کچھ سینئر رہنما جس میں پرویز رشید گروپ، مریم اورنگ زیب اور جاوید لطیف چاہتے ہیں کہ ہمیں مریم نواز اور نواز شریف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہر صورت مولانا کا ساتھ دینے کے لئے آگے آنا چاہیے، لیکن اس پر پارٹی کے اندر اختلافات موجود ہیں ،جس کی وجہ سے ان کو شہباز شریف کے اہم فیصلوں سے الگ رکھا گیا۔
البتہ حکومت کے اعلیٰ افسروں اور اپوزیشن کے درمیان کچھ ایسے معاملات طے ہونے کا انکشاف ہوا جس کے مطابق شہباز شریف مولانا کا مکمل ساتھ نہیں دیں گے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی مولانا کا مکمل ساتھ نہیں دے گی۔ اب دونوں پارٹیوں نے آج اپنے اپنے اہم اجلاس بھی طلب کرلئے ہیں جس میں اہم فیصلے ہوں گے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ملک بھر میں احتجاجی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور متعلقہ عہدیداروں کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے ۔ انکو اہم ٹاسک بھی دئیے گئے ہیں۔