شہباز شریف مشکل حالات میں راستہ نکالنے کا فن جانتے ہیں

Last Updated On 07 November,2019 09:37 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے اندر احتجاجی مارچ کو احتجاجی دھرنے میں تبدیل کرنے کے حوالے سے واقعتاً کوئی نفسیاتی کیفیت طاری ہے یا مسلم لیگ ن فیصلہ کر چکی ہے کہ و ہ ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گی جس کے مقاصد پوری طرح واضح نہ ہوں اور جس کے نتیجہ میں ملک میں جاری جمہوریت یا جمہوری عمل کیلئے خدشات اور خطرات در پیش ہوں اور اس تاثر میں کتنی صداقت ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد مریم نواز اسلام آباد میں جاری احتجاجی دھرنے سے خطاب کر سکتی ہیں اور اس طرح سے ن لیگ کی طے شدہ پالیسی متاثر ہوگی۔

مذکورہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے دو تین چیزیں اہم ہیں ایک تو مولانا فضل الرحمن کی جانب سے احتجاجی مارچ کے حوالے سے پارٹی قائد نواز شریف کی واضح حمایت کی ہدایات تھیں، دوسرا یہ کہ جیل سے باہر لیڈر شپ کی موجودہ صورتحال میں کسی بڑی احتجاجی تحریک اور خصوصاً اسلام آباد میں ایسی صورتحال طاری کرنے کے حوالے سے تحفظات تھے کہ جس کے نتیجہ میں جمہوریت یا جمہوری سسٹم کے حوالے سے خطرات یا خدشات ہوں اور تیسرا یہ کہ دونوں بڑی جماعتوں کی جیل سے باہر قیادت کے درمیان یہ چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ انہیں احتجاجی مارچ میں بھرپور شرکت پر اصرار کرنے والے مولانا فضل الرحمن آخر کیوں اس سارے عمل اور اس کے مقاصد پر اعتماد میں لینے کو تیار نہیں اور یہ کہ انہوں نے احتجاجی مارچ کے حوالے سے تاریخ کا اعلان بھی بڑی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر کیا۔

پہلے پہل تو نواز شریف کی ہدایات یہ تھیں کہ مارچ اور ان کے ہر اقدام کی حمایت کی جائے جس پر مسلم لیگ ن کی قیادت خصوصاً شہباز شریف، خواجہ آصف، احسن اقبال، ایاز صادق اور دیگر کے اپنے تحفظات تھے وہ احتجاج کا حصہ بننے کیلئے تو تیار تھے مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن انہیں بھی تو اپنے مقاصد کے حوالے سے اعتماد میں لیں لیکن مولانا نے اپنی مٹھی بند رکھی اور اپنی حکمت عملی کو اپنی جماعت تک محدود رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اپنا ساتھ دینے کیلئے دباؤ جاری رکھا۔ احتجاجی مارچ جب دھرنے میں تبدیل ہونا شروع ہوا تو دونوں بڑی جماعتوں نے غیر محسوس انداز میں اس سے نکلنا شروع کر دیا کیونکہ یہی وہ مرحلہ تھا جس سے وہ گریزاں تھے اور پھر جب رہبر کمیٹی کے اجلاس میں حکومت سے نجات کیلئے استعفوں کے آپشن کی بات ہوئی تو دونوں بڑی جماعتوں کے نمائندوں نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنا شروع کر دیا، انہوں نے اپنے تحفظات بھی ظاہر کئے اب جبکہ حکومت اور رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکراتی سلسلہ شروع ہوا ہے تو معاملہ آگے بڑھتا اور چلتا نظر نہیں آ رہا۔

البتہ ایک بات واضح ہے کہ ن لیگ اور پی پی نہ تو استعفوں کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی کسی ایسے احتجاج کا حصہ بننے کیلئے جس کے ذریعہ سڑکیں بند ہوں یا سیاست میں تشدد ابھر آئے کیونکہ ان کے نزدیک ایسا غیر معمولی عمل جمہوری سسٹم کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ ن میں کسی نفسیاتی کیفیت کا سوال ہے اب تک کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو شہباز شریف کا بیانیہ غالب نظر آ رہا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس سے ان کی جماعت کو بھی کوئی سیاسی نقصان پہنچے اور ان کا سیاسی و پارلیمانی امیج متاثر ہو۔ پارٹی کی واضح اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہمیں مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کا حصہ رہنے کے بجائے اپنے سیاسی کردار کیلئے تگ و دو کرنی چاہئے، مطالبات کی حد تک ضرور مولانا کی حمایت ہونی چاہئے۔

جہاں تک مریم نواز کی رہائی اور احتجاجی دھرنے میں شرکت کا سوال ہے تو یہ خواہش بھی انہیں لوگوں کی ہے کہ جو ہر قیمت پر اور کسی بھی طرح موجودہ حکومت سے نجات چاہتے ہیں جبکہ مریم نواز کی ترجیح موجودہ صورتحال میں اپنے والد نواز شریف ہوں گے جو اس وقت زندگی موت کی کشمکش سے دو چار ہیں۔ ان کی تشویشناک صحت کی صورتحال خود مسلم لیگ ن کیلئے کسی احتجاجی دھرنے سے اہم ہے، مریم نواز نہ تو کسی احتجاج میں شامل ہوتی نظر آ رہی ہیں اور نہ ہی اسلام آباد دھرنے میں ان کے خطاب کا کوئی امکان ہے، جہاں تک آنے والے حالات میں ان کے سیاسی کردار کا تعلق ہے تو وہ پارٹی کی نائب صدر بھی ہیں اور انہیں اس لئے سیاسی محاذ پر جماعت ضرور سرگرم کرے گی۔

مریم نواز کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے وہ ایشوز پر اپنی رائے رکھنے اور اختلاف رائے کا آغاز کرنے کے باوجود کریں گی وہی جو پارٹی ڈسپلن ہوگا۔ مشکل حالات میں راستہ نکالنے کا فن شہباز شریف جانتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں بھی وہ ایسا طرز عمل اور طریقہ کار اختیار کرنے کے خلاف ہیں جس کے نتیجہ میں ان کی جماعت کے ریاستی اداروں سے فاصلے اور بڑھیں اور ن لیگ کیلئے اقتدار کی منزل سے دور ہو۔ جہاں تک حکومت سے نجات کیلئے ن لیگ کی حکمت عملی کا سوال ہے تو وہ سمجھ رہی ہے کہ آئینی آپشن یہی ہے کہ حکومت کی نا اہلی اور ناکامی کو بنیاد بنا کر وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لائی جائے اور شہباز شریف اسے خارج از امکان نہیں سمجھتے۔


 

Advertisement