اسلام آباد: ( روزنامہ دنیا ) کبھی موقف میں سختی تو کبھی نرمی، کبھی مذاکرات تو کبھی ملاقاتیں۔ یہ ہیں مولانا فضل الرحمان جو مطالبات کی ایک فہرست لیے اسلام آباد کی سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچے اور یکم نومبر کو انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو روز کی ڈیڈ لائن دی۔ ڈیڈ لائن ختم ہونے پر توقع تھی کہ مولانا نئے لائحہ عمل کا اعلان جارحانہ انداز میں کریں گے مگر اس رات مولانا کی تقریر کم اور خطبہ زیادہ تھا، جے یو آئی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کریگی، مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔
پیر کو اے پی سی میں شریک جے یو آئی کے ایک رہنما نے بتایا کہ کانفرنس میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے شریک رہنماؤں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس قیادت کی اجازت کے بغیر حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں، جبکہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی اے پی سی میں شریک نہ ہو سکے۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے مطابق مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کو ڈی چوک لے جانا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں رضامند نہ ہوئیں۔ اے پی سی میں مولانا نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا کہا اور انھیں ان کا یہ وعدہ یاد دلایا کہ جب وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر عوام لے کر پہنچیں گے تو پھر وہ ان کی پشت پر کھڑے ہو جائیں گے۔
احسن اقبال نے اجلاس میں بتایا کہ ان کی قیادت نے صرف ایک دن کے لیے جلسے میں شرکت کی اجازت دی تھی۔ یہی موقف پیپلز پارٹی کا تھا۔ تاہم دونوں نے اپنی اپنی قیادت سے مشاورت کے وعدے کیے اور چلتے بنے۔ ذرائع کے مطابق رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے مولانا فضل الرحمان کو بتایا کہ ان کے علاوہ رہبر کمیٹی میں کوئی بھی با اختیار نہیں ہے، جو غیر یقینی صورتحال کا باعث ہے۔ اپوزیشن کی تقسیم نے مولانا فضل الرحمان کو وقتی طور پر جارحانہ حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ جس کے بعد مولانا نے مقتدر حلقوں کو براہ راست مذاکرات کا پیغام بھیجا۔ انھوں نے احتجاج ختم کرنے کا تاثر دیا لیکن خاتمے کا اعلان نہیں کیا۔ ایک رہنما کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے جب دیکھا کہ دونوں جماعتیں مذاکرات میں مصروف ہیں تو پھر انھوں نے ایک نئی سیاسی چال چلی۔ اب مذاکرات میں آزادی مارچ کے علاوہ آئندہ کے احتجاج کو روکنے پر بھی بات ہو رہی ہے۔
جب ڈیڈ لاک دور نہ ہو سکا تو اس صورتحال میں سب کو گجرات کے چودھریوں کی یاد ستانے لگی۔ چودھری برادران صرف اس شرط پر آمادہ ہوئے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزرا اپوزیشن کے خلاف بیان بازی روک دیں گے۔ ذرائع کے مطابق اگر کوئی درمیانی رستہ نکلا تو وہ گجرات سے ہو کر ہی نکلے گا، اس وقت لاڑکانہ اور جاتی امرا کی طرف جانے والے رستوں کو تحریک انصاف کی حکومت موافق نہیں سمجھتی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا موقف بڑا واضح ہے۔ پیپلز پارٹی دھرنا، طاقت کا استعمال اور افراتفری نہیں چاہتی۔ مسلم لیگ ن کے مرتضیٰ عباسی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے آزادی مارچ اور جلسے میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ جلسے کے بعد ہمارے کارکن واپس آ چکے۔ تاہم مولانا فضل الرحمن کی جانب سے رابطوں اور تجاویز کے بعد دوبارہ پارٹی اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔
جے یو آئی کے ایک رہنما کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تسلسل کے ساتھ مولانا کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیے جانے پر کارکنوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ کارکن بھی چاہتے ہیں کہ احتجاج کا کوئی اگلا لائحہ عمل ہونا چاہیے مگر جے یو آئی کی قیادت بظاہر اس معاملے پر منقسم نظر آتی ہے۔ جے یو آئی کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت کے مقتدر قوتوں کے ساتھ تیسرے ذریعے سے رابطے بحال ہو چکے ۔ جس کے بعد تلخی کم ہوئی ہے۔ ان کے مطابق انتخابی اصلاحات کے علاوہ گذشتہ عام انتخابات میں ‘دھاندلی’ پر بات ہوئی ہے۔ ان دو نکات پر ہی بات آگے چل رہی ہے۔ یہ دو نکات ہی موجودہ حکومت کا مستقبل طے کریں گے۔