لاہور: (دنیا نیوز) آئینی ماہرین نے کہا ہے سپریم کورٹ نے ملک کو بحران سے بچاتے ہوئے حکومت کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ دیئے ہیں۔ یہ مدبرانہ فیصلہ ہے، قومی بحران ٹل گیا۔
پروگرام دنیا کامران خان کیساتھ میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر قانون علی ظفر نے کہا جب یہ کیس شروع ہوا تو پہلے دن سپریم کورٹ نے دو تین اہم نکات اٹھائے تھے، عدالت نے فیصلہ کیا کہ ایسی کوئی شق نہیں ہے اور وزیر اعظم کے پاس دوبارہ تقرری یا مدت میں توسیع دینے کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا، اس لئے سپریم کورٹ نے ایک قومی بحران ختم کرتے ہوئے 6 ماہ کا وقت دیا ہے، وفاقی حکومت کا کام ہے کہ وہ بل تیار کرے اور قومی اسمبلی میں پیش کر دے، اس بل پر قومی اسمبلی میں بحث ہوگی۔
انہوں نے کہا یہ عام قانون ہے اس لئے سادہ اکثریت سے منظور ہو جائے گا، اس کے بعد یہ سینیٹ میں جائے گا، امید ہے کہ سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن ملکر اس کی منظوری دیں گے، سینیٹ زیادہ سے زیادہ دو بار اس کو منظور کرنے سے انکار کرسکتی ہے اور قومی اسمبلی کی طرف سے تیسری بار سینیٹ کو بھیجا جائے گا تو وہ بل قانون تصور گا۔ یہ معاملہ چند ہفتوں یا ایک دو ماہ میں بھی طے ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ مدبرانہ ہے، پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی، یہ اچھی بات ہے کہ پارلیمنٹ اس پر بحث کرے اور اجتماعی دانشمندی سے فیصلہ ہو۔ یہ بہت اچھی روایت ہوگی۔
ماہر آئین و قانون سلمان اکرم راجا نے کہا ریگولیشن 255 میں سقم کے باعث ابہام پیدا ہوا، سپریم کورٹ اگر حکومتی نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیتی تو ایک خلا پیدا ہو جاتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے کو 6 ماہ کیلئے اٹھا رکھا ہے اگر 6 ماہ میں کچھ نہیں ہوتا تو یہ نوٹیفکیشن ختم ہو جائے گا۔ میرے خیال میں اس پر کوئی سیاسی جماعت بھی جارحانہ یا غیر معقول رویہ اختیار نہیں کرے گی۔