اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ آرمی چیف کا ٹینیور آج رات 12 بجے سے شروع ہو جائے گا، انہوں نے ابہام دور کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت چھ ماہ بعد ختم نہیں ہوگی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دشمن کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہیں، ہمیں ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ دشمن چاہتا ہے کہ معاملے کو خراب کیا جائے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے کہا کہ آج کا فیصلہ بہت تاریخی ہے، اس سے مستقبل میں ہمیں رہنمائی ملے گی، ہمارے سامنے بہت سی ایسی چیزیں آئیں جن پر کبھی کسی عدالت نے فیصلہ نہیں دیا تھا۔
حکومت کی قانونی ٹیم بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ تقسیم ہندوستان سے پہلے کا ہے، جس پر کچھ ترامیم کے بعد عمل ہو رہا ہے۔ آرمی ایکٹ کے رولز پر مکمل عملدرآمد کیا گیا۔ اسے پہلے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تین دن کے اندر مختلف قوانین پر بحث ہوئی۔ 1973ء کے آئین کے بعد مختلف آرمی چیفس کو ایکسٹینشن دی گئیں۔ سابق آرمی چیفس کی طرح جنرل باجوہ کو بھی مدت ملازمت میں توسیع دی گئی، اس سلسلے میں معمول کے تحت نوٹیفکیشن بنا دیا گیا تھا۔
انور منصور خان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 243 اور آرمی ریگولیشن 255 کا بڑا ذکر ہے۔ عدالت کی جانب سے 243 اور رول 255 کو الگ الگ دیکھا گیا۔ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت طے نہ ہونے پر زیادہ بحث ہوئی۔ آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت عالیہ میں زیادہ بحث اس نقطے پر ہوئی کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں، شارٹ آرڈر کا متن یہی ہے کہ قانون بنا کر آئندہ اسی قانون کے تحت تعنیاتی کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا میں بڑے عجیب طریقے سے اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دشمن اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں دشمنوں کو ایسی بات کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ 243 کی تشریح پوائنٹ آف فرسٹ امپریشن کے طور پر کی گئی۔ 70 سال سے معاملات کو ٹھیک نہیں کیا گیا۔ رہنمائی کرنے پر چیف جسٹس صاحب کے شکر گزار ہیں۔ سپریم کورٹ نے قانون لانے کے لیے رہنمائی کی۔ سپریم کورٹ کا حکم پاکستان کی فلاح کے لیے ہے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وکیل اور جج مکالمے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بس فیصلہ آ رہا ہے۔ ہم سب کو اس کیس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ ہر چیز کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہ دیکھا جائے۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس کیس کے فیصلے کو کسی ایک شخصیت سے نہ جوڑا جائے۔ آج پاکستان میں آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے اور اسے استحکام ملا ہے اور جو پاکستان کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کی آس لگائے بیٹھے تھے، انھیں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: سادہ اکثریت کے ساتھ قانون پاس ہو جائے گا، کوئی ایشو نہیں ہے: اٹارنی جنرل