اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کا پیرا 66 بہت ہی اہم ہے، جس میں لکھا ہے کہ پرویز مشرف کی لاش کو تین روز تک لٹکایا جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی ججمنٹ دینے کا مطلب اور ضرورت کیا تھی؟ لاش تین دن تک چوراہے پر لٹکائے جانے کی کوئی قانونی اور اخلاقی گنجائش نہیں ہے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کر رہی تھی۔ ایسی آبرزویشن دینے کا حق کسی جج کو نہیں، جسٹس وقار سیٹھ کو فوری طور پر کام سے روک دیا جائے۔ ایسے جج کو پاکستان کی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج ہونے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس طرح کی آبزرویشن سے عدالتی وقار مجروح ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ سرعام پھانسی اسلامی قوانین کے منافی ہے۔ اس طرح کی آبزرویشن سے جج کی ذہنی حالت پر سوال اٹھتے ہیں۔ آرٹیکل 209 کے تحت جج کے خلاف ریفرنس دائر کر رہے ہیں۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس اہم معاملے پر وفاقی حکومت کو شدید تحفظات ہیں۔ پیرا 66 پر دو ججوں نے اختلاف کیا۔ اگر دو ججوں نے اختلاف کیا تو پھر اتفاق رائے کدھر تھا؟
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، ہم حیران ہیں۔ پیرا 66 میں قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے قانون، شرعی اور انٹرنیشنل لا کی دھجیاں اڑا کر دکھ دیں۔ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ ہمارا سرشرم سے جھک گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کے پیچھے تمام محرکات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ریفرنس کے علاوہ وفاقی حکومت اپیل میں بھی جائے گی۔ پیرا 66 ہمارے لیے شرمساری کا باعث ہے۔ قانون کے رکھوالوں کو ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا جج وقار سیٹھ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنیکا فیصلہ