اسلام آباد: (دنیا نیوز) سنگین غداری کیس میں تین رکنی بنچ کے ایک جج جسٹس نذر اکبر نے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جنرل مشرف فضا میں تھے، ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔ قومی اسمبلی نے 7 نومبر 2007ء کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی۔
جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ادب کے ساتھ صدر عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں۔ پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا۔ اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007ء کا اقدام تھا۔ قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ ایک بھی رکن پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی۔
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ قومی اسمبلی نے 7 نومبر 2007ء کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی۔ بہت سارے پارلیمنٹیرینز وکلا اور وہ جو وکلا تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لا سکے۔ پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت ان کے ساتھ موجود دیگر افراد کو اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔ وزارت داخلہ سنگین غداری کے معاملہ پر صاف شفاف انکوائری کرنے میں ناکام ہوئی۔
جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 99 کی ایمرجنسی کی توثیق نظریہ ضرورت کے تحت کی۔ اس وقت پارلیمنٹ نے 17ویں ترمیم کے ذریعے مجرم کو سہولت دی۔ جسٹس نذر اکبر نے غداری کی تعریف کے حوالے سے بلیکس لا ڈکشنری کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاک فوج کا ہر سپاہی آئین پاکستان کی پاسداری کا پابند ہے۔ آئین توڑنے والے جنرل کا ساتھ دینے والی ہائی کمان آئین کے تحفظ میں ناکام رہی۔ جنرل مشرف فضا میں تھے۔ ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔ اس کہانی کے پس منظر میں ملزم پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ ججز بحالی کیسی ہوئی؟ اعتزاز احسن کو کس کا ٹیلی فون آیا؟ یقین ہے کال کرنے والی شخصیت صدر پاکستان یا وزیراعظم پاکستان نہیں تھے۔ ججز بحالی کا اعلان ہونے کے بعد بھی پانچ دن بعد انہیں بحال کیا گیا۔