لاہور: (محمد حذیفہ) دنیا بھر میں سائنسدان آج کل ایک ایسے دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں زندگی اور مشین کے درمیان فاصلہ تیزی سے گھٹ رہا ہے، اب انسان محض مشینیں بنانے والا نہیں بلکہ انہیں زندگی کے اصولوں پر چلانے والا بھی بنا رہا ہے۔
تازہ ترین مثال امریکا کی یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ کے سائنسدانوں کی ہے جنہوں نے پہلی بار ایک ایسا مصنوعی نیوران (Artificial Neuron) تیار کیا ہے جو زندہ خلیات سے براہِ راست بات چیت کر سکتا ہے، یہ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ انسان اور مشین کے درمیان رابطے کی نئی داستان کا آغاز ہے۔
دماغ کی زبان سمجھنے والا نیوران
ہم جانتے ہیں کہ انسانی دماغ ایک ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ نظام ہے، اربوں نیورانز مل کر بجلی کی انتہائی باریک لہروں کے ذریعے خیالات، احساسات، یادیں اور فیصلے تخلیق کرتے ہیں، ہر نیوران دوسرے نیوران کو نہایت ہلکی برقی رو( تقریباً 0.1 وولٹ ) کے سگنل سے پیغام بھیجتا ہے، یہ نظام اتنا مؤثر ہے کہ پورا دماغ محض 20 واٹ بجلی پر چلتا ہے، یعنی ایک بلب جتنی توانائی میں ہم سوچتے، خواب دیکھتے اور یاد رکھتے ہیں۔
سائنسدان برسوں سے اس نظام کی نقل بنانے کی کوشش میں تھے، وہ چاہتے تھے کہ کمپیوٹر بھی انسان کے دماغ کی طرح کم توانائی میں زیادہ ذہانت دکھائے مگر اب تک بنائے گئے مصنوعی نیوران زیادہ برقی وولٹیج مانگتے تھے، جو زندہ خلیات کو نقصان پہنچاتا تھا لیکن یونیورسٹی آف میساچوسٹس کی ٹیم نے یہ رکاوٹ عبور کر لی ہے، اس حیرت انگیز ایجاد کے پیچھے ایک انوکھا بیکٹیریا Geobacter sulfurreducens ہے، یہ جاندار عام بیکٹیریا کی طرح نہیں بلکہ ایک بجلی پیدا کرنے والا خوردبینی جاندار ہے۔
سائنسدانوں نے اس سے حاصل کردہ پروٹینی نینوائرز (Protein Nanowires) استعمال کر کے ایک ایسا الیکٹرانک ڈھانچہ تیار کیا جو بالکل قدرتی نیوران کی طرح کم وولٹیج پر کام کرتا ہے، یہ نینوائرز نہ صرف بجلی کی ترسیل میں مؤثر ہیں بلکہ اپنی لچک اور نرمی کی وجہ سے خلیات کے ساتھ بغیر کسی نقصان کے رابطہ قائم کرتے ہیں، یوں پہلی بار ایک مصنوعی نظام ممکن ہوا جو زندہ خلیات سے ان کی اپنی زبان میں بات کر سکتا ہے۔
اس ایجاد نے بائیو ہائبرڈ سسٹمز کا ایک نیا تصور پیدا کیا ہے، یعنی ایسے نظام جو جزوی طور پر حیاتیاتی ہوں اور جزوی طور پر مشینی، یہ وہی خیال ہے جو کبھی سائنس فکشن ناولوں اور فلموں میں دکھایا جاتا تھا کہ آدھا انسان اور آدھی مشین۔
مگر اب یہ محض تصور نہیں رہا بلکہ عملی حقیقت کی صورت اختیار کر رہا ہے، یہ مصنوعی نیوران مستقبل میں ایسے آلات کے لئے بنیاد بن سکتا ہے جو دماغ یا اعصاب کے خراب حصے کی جگہ لے سکیں، مثلاً الزائمر، پارکنسن یا فالج کے مریضوں کے لئے ایسے نیورل امپلانٹس جو اِن کے دماغ کے مردہ خلیات کی جگہ کام انجام دیں، یوں یہ ایجاد نہ صرف مصنوعی ذہانت بلکہ طبی سائنس میں بھی انقلاب برپا کر سکتی ہے، اس نئی ٹیکنالوجی کے اثرات صرف طب تک محدود نہیں رہیں گے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل کے کمپیوٹر اگر دماغ کی طرز پر بنائے جائیں، یعنی وہی برقی سگنل، وہی نیوران نما ڈھانچے ، تو وہ موجودہ کمپیوٹرز کے مقابلے میں سینکڑوں گنا کم توانائی استعمال کریں گے، یہی اصول نیو مورفک کمپیوٹنگ (Neuromorphic computing) کہلاتا ہے۔
آج کے جدید ڈیٹا سینٹرز، مصنوعی ذہانت کے ماڈلز اور روبوٹس لاکھوں واٹ توانائی خرچ کرتے ہیں، اگر مصنوعی نیوران جیسے نظام رائج ہوگئے تو نہ صرف توانائی کی بچت ممکن ہوگی بلکہ کمپیوٹر زیادہ ماحول دوست اور پائیدار بھی بن جائیں گے، ایک اور حیران کن امکان یہ ہے کہ مستقبل میں انسان اپنے دماغ سے براہِ راست مشینوں کو کنٹرول کر سکے گا، اگر مصنوعی نیوران زندہ خلیات سے بغیر کسی مشکل کے بات کر سکتا ہے، تو وہ دماغی سگنل کو براہِ راست پڑھ بھی سکتا ہے، یوں Brain-Computer Interfaceیا BCI ٹیکنالوجی ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی۔
تصور کریں کہ محض سوچ کر آپ کمپیوٹر چلا سکیں، وہیل چیئر کو حرکت دے سکیں یا مصنوعی بازو سے چیز اُٹھا سکیں، یہ سب ممکن ہو سکتا ہے، ماہرین اب اس مصنوعی نیوران کو ایک سے زیادہ تعداد میں جوڑ کر ایک پورا نیٹ ورک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسا نیٹ ورک جو خود سیکھ سکے، ردعمل دے سکے، اور شاید ایک دن مصنوعی اعصابی نظام کی شکل اختیار کر لے۔
یونیورسٹی آف میساچوسٹس کی یہ تحقیق سائنس کی تاریخ میں ایک نئے باب کی ابتدا ہے، ایک ایسا باب جہاں مشینیں ہماری طرح محسوس کر سکیں گی اور ہم مشینوں کے ساتھ بات کر سکیں گے، یہ خواب شاید آنے والے عشروں میں حقیقت بن جائے۔
مگر کچھ سوال باقی ہیں
جہاں یہ کامیابی حیران کن امکانات پیدا کر رہی ہے وہیں کئی اخلاقی، سماجی اور فلسفیانہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں، اگر مصنوعی نیوران دماغ میں نصب کئے گئے تو کیا وہ انسان کی سوچ یا احساسات پر اثر ڈال سکتے ہیں؟ کیا مستقبل میں ایسے انسان پیدا ہوں گے جن کی کچھ صلاحیتیں مصنوعی ہوں اور کچھ قدرتی ہوں گی؟ یہ سوالات سادہ نہیں بلکہ آئندہ صدی کی سب سے بڑی بحث کے موضوع بن سکتے ہیں۔
محمد حذیفہ کمیپوٹر سائنس کے طالب علم ہیں، ان کے بلاگ مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔