لاہور: (محمد علی) ہر سال 30 ستمبر کو دنیا بھر میں ’’انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے‘‘ یعنی ترجمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے، یہ دن اس بات کا اعتراف ہے کہ ترجمہ صرف الفاظ کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ڈھالنے کا عمل نہیں بلکہ تہذیبوں، قوموں اور خیالات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا ذریعہ ہے۔
انسانی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علم کے فروغ اور تہذیبوں کی ترقی میں ترجمے کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، گویا ترجمہ ایک ایسا پل ہے جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو آپس میں ملاتا ہے، دنیا کی بڑی بڑی لائبریریاں، تعلیمی ادارے اور سائنسی مراکز اسی وقت ترقی کے زینے طے کر سکے جب انہوں نے ترجمہ کو اپنا سہارا بنایا۔
عباسی دور میں بغداد کے بیت الحکمہ میں یونانی فلسفہ، ریاضی اور سائنس کی کتب عربی میں منتقل کی گئیں، جنہوں نے اسلامی تہذیب کو سنہری دور عطا کیا، بعد ازاں یہی تراجم یورپ پہنچے اور نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بنے، اگر ترجمہ نہ ہوتا تو شاید نہ سائنس اتنی تیزی سے آگے بڑھتی اور نہ ہی دنیا کے مختلف خطے ایک دوسرے کی فکری وراثت سے فیضیاب ہوتے۔
اردو اور ترجمے کی روایت
اردو زبان میں ترجمے کی روایت بھی اتنی ہی پرانی اور شاندار ہے، ولی دکنی کے دور سے لے کر سرسید احمد خان، شبلی نعمانی اور مولانا محمد علی جوہر تک، متعدد اہل قلم نے ترجمہ کو ذریعہ اظہار بنایا، قرآن مجید اور احادیث شریف کے تراجم سے لے کر مغربی سائنس اور فلسفے کی کتب تک اردو زبان نے علم کے ہر دروازے کو اپنے قاری کے لئے کھولا، اردو میں ترجمے نے نہ صرف علمی افق کو وسیع کیا بلکہ عام آدمی کو بھی دنیا کے بڑے بڑے افکار سے روشناس کرایا۔
اکیسویں صدی کو مواصلاتی صدی کہا جاتا ہے، انٹرنیٹ، ایپلیکیشنز اور مصنوعی ذہانت نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے، اب ایک ملک میں ہونے والی ایجاد، دوسرے ملک میں فوراً قابلِ استعمال ہو جاتی ہے، اس تناظر میں ترجمہ پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، آج کوئی سائنسدان، محقق یا طالب علم صرف اسی وقت عالمی برادری میں مقام بنا سکتا ہے جب وہ زبان کی رکاوٹوں کو عبور کرے۔
اردو بولنے والے معاشروں کے لیے ترجمہ علم کی دنیا میں داخل ہونے کا سنہری دروازہ ہے، اگر ہم اپنی زبان میں دنیا کی تازہ ترین ریسرچ منتقل نہ کریں تو ہماری آنے والی نسلیں علمی میدان میں پسماندہ رہ جائیں گی۔
اردو میں ترجمے کی کمی اور چیلنجز
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو میں ترجمے کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو رہی، سائنسی مضامین، ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات اور عصری علوم کی اکثر کتابیں انگریزی میں موجود ہیں، لیکن اردو میں ان کا ترجمہ بہت کم ملتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اردو کے قاری جدید دور کی زبان اور اسلوب سے کٹتا جا رہا ہے، مزید یہ کہ بعض ترجمے ایسے ہوتے ہیں جو محض لفظ بہ لفظ کئے جاتے ہیں، جس سے اصل متن کا ذائقہ اور روح ختم ہو جاتی ہے، یہ صورتحال ایک چیلنج بھی ہے اور موقع بھی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو میں ترجمے کے اداروں کو مضبوط کیا جائے، جامعات میں شعبہ ہائے ترجمہ قائم ہوں، جدید اصطلاحات کو اردو میں وضع کرنے کے لئے لغت سازی کا کام تیز کیا جائے اور مترجمین کو تربیت دینے کے پروگرام شروع کئے جائیں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترجمہ صرف ایک ادبی مشق نہیں بلکہ قومی بقا اور ترقی کا مسئلہ ہے، اگر ہم نے اپنی زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتب منتقل کر لیں تو نہ صرف طلبہ کی استعداد بڑھے گی بلکہ قومی زبان میں علمی روایت بھی پروان چڑھے گی۔
انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ترجمہ دنیا کے لئے ایک سانس کی طرح ضروری ہے، یہ نہ ہو کہ ہم اپنی قومی زبان کو محض جذباتی نعرہ بازی تک محدود رکھیں اور علم و فن کے دروازے بند کر دیں، اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اردو عالمی سطح پر علمی زبان کے طور پر ابھرے تو ترجمے کی روایت کو زندہ اور فعال بنانا ہوگا، ترجمہ ہی وہ چراغ ہے جو اندھیروں کو دور کرتا ہے اور قوموں کو ترقی کے راستے پر ڈالتا ہے۔
اردو کے قاری کو دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہر نئی ایجاد، ہر تازہ خیال اور ہر اہم نظریہ اس کی زبان میں منتقل ہو، یہی ترجمے کی اصل روح ہے اور یہی پیغام 30 ستمبر کو منائے جانے والے ’’انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے‘‘ کا ہے۔
ترجمہ ایک تخلیقی عمل
ترجمہ محض لغت کے لفظوں کو جوڑنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے، مترجم کو دونوں زبانوں کی باریکیوں اور ثقافتی پس منظر سے واقف ہونا چاہیے، ایک کامیاب ترجمہ وہی ہوتا ہے جو قاری کو یوں محسوس ہو کہ یہ تحریر اسی کی زبان میں لکھی گئی ہے، اردو میں ترجمہ کرنے والے اہل قلم کو یہ کمال دکھانا ہوگا کہ وہ انگریزی یا کسی دوسری زبان کے پیچیدہ مفاہیم کو رواں اور با محاورہ اردو میں ڈھال سکیں۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔