لاہور: (رپورٹ :طارق حبیب) سندھ پبلک سروس کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے 2018 کے امتحانات اور نتائج کو مشکوک بنا دیا، بڑی تعداد میں پبلک سروس کمیشن کے ذمہ داران، سندھ حکومت اور بیوروکریسی کی اہم شخصیات کے بچے اور قریبی رشتہ دار کامیاب ہو گئے، شہری علاقوں کے کوٹے پر بھی دیہی علاقوں کے امیدوار کامیاب ہوئے، تحریری امتحان میں بہترین نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو انٹرویو میں حیران کن طور پر انتہائی کم نمبر دیئے گئے، تاہم تحریری امتحان میں پاسنگ مارکس لینے والوں کو انٹرویو میں غیر معمولی نمبر ملے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت تحریری امتحانات نومبر 2018 میں منعقد ہوئے، جس کا نتیجہ 28 اگست 2019 کو جاری کیا گیا، جس میں 3382 امیدواروں میں سے 554 کو کامیاب قرار دیا گیا تھا، کامیاب امیدواروں کے انٹرویو کا سلسلہ 16 اکتوبر 2019 تک جاری رہا، جس کے بعد 25 اکتوبر 2019 کو انٹرویو کے نتائج کا اعلان کیا گیا، ان نتائج کے اعلان کے بعد امتحانات میں شریک امیدواروں کی جانب سے اعتراضات سامنے آنا شروع ہوگئے، سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے نتائج کے اجرا کے طریقہ کار میں سپریم کورٹ کے احکامات کو یکسر نظر انداز کردیا گیا تھا۔
2013 کے پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں جب نتائج پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے تو سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لے کر ان امتحانات اور نتائج کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ نتائج جاری کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی ہدایات جاری کی گئی تھیں، جن کے مطابق نتائج کے اجرا کے وقت امیدواروں کی تفصیلی مارک شیٹ جاری کی جائے گی، کالعدم امتحانات کا دوبارہ انعقاد ہوا اور نتائج جاری ہوئے تو سپریم کورٹ کی ہدایات کو مد نظر رکھا گیا مگر نومبر 2018 میں ہونے والے تحریری امتحان کے نتائج اور انٹرویو کے نتائج میں ایک بار پھر اس طریقہ کار کو یکسر انداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف کیا گیا۔
2018 کے امتحان میں تحریری امتحان اور انٹرویو میں کامیاب امیدواروں کا مختصر ترین ڈیٹا جاری کیا گیا جبکہ امتحانی نتائج میں 2013 کے کالعدم امتحانات کی روش برقرار رکھتے ہوئے تحریری امتحانات میں صرف پاسنگ مارکس لینے والے امیدواروں کو انٹرویو میں غیر معمولی نمبر دیکر کامیاب قرار دیدیا گیا جبکہ تحریری امتحان میں بہترین نمبر حاصل کرنے والوں کو انٹرویو میں کم نمبرز دیکر ناکام کر دیا گیا، اس حوالے سے جب مقامی امیدواروں نے سندھ ہائی کورٹ میں پبلک سروس کمیشن کے اس امتحان کے خلاف پٹیشن جمع کرائی تو عدالت کی جانب سے درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے کمیشن کے چیئرمین اور سیکرٹری سمیت متعلقہ عہدیداروں کو طلب کیا گیا تھا۔
دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی، جب عدالت کی جانب سے 13 دسمبر کو طلب کئے جانے کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ پر امتحانات کے نتائج کے حوالے سے نئی فہرست 14 دسمبر کو رات 11 بجے اپ لوڈ کی گئی حالانکہ ہفتہ اور اتوار کو پبلک سروس کمیشن میں ہفتہ وار تعطیل ہوتی ہے اور مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ جلد بازی میں دوسری فہرست آویزاں کی گئی، وہ بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق نہیں تھی، 2013 میں سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دئیے جانے والے امتحانات پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس میں سندھ حکومت اور بیوروکریسی میں شامل افراد کے بچے بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے تھے۔ رواں سال جاری نتائج میں بھی یہی صورتحال سامنے آئی اور بڑی تعداد میں نہ صرف سندھ حکومت کی اہم شخصیات اور بیوروکر یٹس کے بچے اور رشتے دار کامیاب ہوئے ہیں بلکہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذمہ داروں کے رشتہ دار بھی کامیاب قرار پائے ہیں۔
ان میں چیف انجینئر بلڈنگز اختر ڈاؤچ کا بیٹا ولید ڈاؤچ، سیپکو چیف سعید ڈاؤچ کی بیٹی کنزہ ڈاؤچ، ڈپٹی کمشنر ٹنڈو الہ یار رشید زرداری کا بیٹا حماد زرداری، سندھ پبلک سروس کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ریکروٹمنٹ اخلاق کلہوڑ کا بھائی وقار کلہوڑ، سندھ پبلک سروس کمیشن کے رکن شبیر شیخ کا قریبی رشتہ دار ماجد حمید شیخ، سابق ڈی آئی جی اکبر پنگوار کا بیٹا حازم پنگوار کامیاب ہوئے، اسی طرح ریٹائرڈ بیورو کریٹ آغا فخر درانی کے ایک برادر نسبتی عبدالمنان سندھ پبلک سروس کمیشن کے گزشتہ امتحان میں کامیاب ہوئے جبکہ دوسرے برادر نسبتی عبدالحنان رواں سال امتحان میں کامیاب قرار دیئے گئے، دوسری جانب سندھ پبلک سروس کمیشن کے عہدیداروں کے رشتہ دار بھی اس امتحان میں کامیاب قرار پائے، جن میں کنٹرولر امتحانات ہادی بخش کلہوڑ کا بھتیجا فراز احمد کلہوڑ اور انہی کے ایک اور رشتہ دار عبیدالرحمن کلہوڑ بھی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے ممبر آفتاب انور بلوچ کا بیٹا فہد انور بلوچ اور سائیں دادسولنگی کی بیٹی عمامہ سولنگی بھی کامیاب قرار پائی، حالانکہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کمیشن میں ایسے ارکان شامل نہیں ہونگے، جن پر کوئی کرپشن کا چارج ہو، مگر غلام شبیر شیخ کمیشن کا حصہ ہیں، جن پر نیب میں آمدن سے زائد اثاثوں اور قومی خزانے کو 50 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کے الزاما ت کی انکوائری جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایسے امیدواروں کی بھی کامیابی کا انکشاف ہوا ہے، جن کے ڈومیسائل اس امتحان میں شریک کرانے کے لئے خصوصی طور پر بنائے گئے تھے، اس ضمن میں اردو سپیکنگ کوٹے میں کئی امیدواروں کی سیٹیں ڈومیسائل کی تبدیلی سے غیر اردو سپیکنگ کو دیکر حق تلفی کی گئی۔ نادرا ریکارڈ کے مطابق سندھ اربن کے کوٹے پر منتخب ہونے والے امیدواروں کے شناختی کارڈ پر پتہ شہری سندھ کا ہے۔
اسی طرح سندھ پبلک سروس کمیشن میں عہدیداروں کے اثرورسوخ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے موجودہ کنٹرولر امتحانات ہادی بخش کلہوڑ کی اس عہدے پر تقرری جون 2013 میں کی گئی تھی، 23 اگست 2019 کو ان کا تبادلہ کردیا گیا تھا تاہم احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ اس عہدے پر فائز رہے، بعدازاں 30 اگست 2019 کو سیکرٹری سروسز نے ہادی بخش کلہوڑ سے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر وضاحت مانگی، جس کا جواب نہیں دیا گیا، البتہ 25 ستمبر 2019 کو چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن میں ہادی بخش کلہوڑ کے ٹرانسفر آرڈر واپس لئے گئے ہیں، اس حوالے سے ان پر الزام ہے کہ اپنے اثر و رسوخ کی بدولت وہ اس عہدے پر قابض ہیں، اس حوالے سے جب سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذ مہ دار نور محمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کر دیا۔