لاہور: (دنیا میگزین) امریکہ بلاشبہ تھانیدار ہی رہے گا مگر روس اور چین کی مجموعی طاقت اس کے لئے چیلنج بن جائے گی۔
اگلے چند برسوں میں دنیا کتنی بدل جائے گی؟ یہ آپ کے تصور میں بھی نہیں ہے۔ ایک ماہر عمرانیات نے کہا ، ’’انسان کو جتنا عروج ملنا تھا مل چکا ،انسانی ذہن میں مزید ترقی کو سنبھالنے کی سکت نہیں، اب زوال اس کامقدر ہو گا ۔انسان نے ہی دنیا میں زہر گھولا ہے۔
یہ امن کا نہیں جنگ کا رسیا ہے ورنہ کیوں سب سے زیادہ تحقیق ایک دوسرے کو مارنے پر ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ اخراجات گولہ بارود اور لوگوں کو مارنے والے آلات و ہتھیاروں کی تیاری پرہو رہے ہیں۔ہمیں روٹی ،صحت ،رہائش اور تعلیم کا سبق دینے والے خود بھی کہاں روٹی اور تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں وہاں بھی پہلی ترجیح بم اور بارود ہیں۔نتائج سے ناواقف انسان دنیا میں خطرنات کھیل کھیل رہا ہے‘‘۔
عالمی فلیش پوائنٹس
بھارتی مقبوضہ کشمیر بدستور فلیش پوائنٹ رہے گا، جنگ کے بادل کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ ایران اورسعودی عرب میں کشیدگی کم ہونے کا امکان نہیں،یہ بڑھتی ہی جائے گی مشرق وسطیٰ کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔جریدہ ’’فارن افیئرز‘‘ کی نومبر دسمبر کی اشاعت میں رابرٹ میلے (Robert Malley)مضمون ’’Why the Middle East Is More Combustible Than Ever The Unwanted Wars, ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’دنیا پر ایک ایسی بڑی جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں جو بظاہرکوئی نہیں چاہتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں سابقہ حکمرانوں کی مداخلت پر نالاں تھے،دوران صدارت بھی ان کا موقف نہیں بدلا۔ ایران بھی بڑی جنگ نہیں چاہتا، وہ جانتا ہے کہ بڑی جنگ کی صورت میں میں اس کی کامیابی کا امکان نہیں۔ اسرائیل، عراق، شام، لبنان اور غزہ میں اتحادیوں فوجوں کی کارروائیوں سے مطمئن ہیں۔ اسرائیل پریشان نہیں۔ سرحدوں کے قریب نصب ایران کے ہزاروں میزائل بادشاہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ سعودی عرب ہر قیمت پر میزائلوں کو ایرانی سرحد کے اندر دھکیلنا چاہتا ہے لیکن جنگ کے بغیر۔ ایران کے پاس بھی کئی آپشنز ہیں وہ عراق میں امریکی فوج کے علاوہ اسرائیل اوردوسرے ممالک میں قائم امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے،یہ جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ہماری یادداشت میں جنگ کے جتنے بھی اندیشے موجود تھے اب ان سے کہیں زیادہ خطرات پائے جاتے ہیں‘‘۔
امریکی صدر کا کیا بنے گا؟
امریکہ میں 2020ء میں مواخذہ ہوگا مگر تحریک کی کامیابی کا امکان کم ہے۔ مواخذے کی تحریک میں ری پبلیکنز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کا تاثر ٹھیک نہیں۔کچھ ارکان بغاوت کریں گے لیکن صدر ٹرمپ بچ نکلیں گے۔
اگلی بار بھی ٹرمپ سرکارکیوں؟
امریکی صدرت ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدرمنتخب ہو سکتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے والے دیگر امیدوار کمزور صدر ہیں، تصور کیجئے، ایک ری پبلیکن امیدوار کے خلاف دو درجن ڈیمو کریٹکس امیدوار بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ جتنے بھی امیدواران میدان میں ہیں، ان میں سب سے اہم ٹرمپ ہیں، کسی کا وژن ان جیسا نہیں۔کئی گروپس اور اپوزیشن رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو غلط گردانتے ہیں لیکن آپس کا یہ اختلاف اس قدر شدید نہیں کہ ڈیموکریٹس چھا جائیں۔ تمام تر اعتراضات کے باوجودوہ امریکی معیشت اور اس کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں معیشت اہمیت رکھتی ہے، ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کو عوام نے پسند کیا ہے۔ان کے مخالفین کے کئی دعوے درست ثابت نہیں ہوئے۔ پھر ٹرمپ انتخابی مہم کے ماہر ہیں، انہوں نے ہیلری کلنٹن اور ان کی پوری ٹیم کو اکیلے ہی پچھاڑ دیاتھا۔ وہ ریلیاں منعقد کرنے کے میں ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے انتخابی مہم ختم ہی نہیں کی، شروع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کاحکومت چلانے کا انداز بھی اپنا ہی ہے۔
ٹرمپ پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے لیکن یہ ووٹوں میں تبدیل نہیں ہو سکتے ۔اگلے انتخابات میں بھی ’’Make America Great Again‘‘ (امریکہ کو دوبارہ عظیم تر بنائیں گے) جیسے قوم پرستانہ نعرے ہی چھائے رہیں گے ۔ امریکہ گریٹ بنے یا نہ بنے، ایوان صدر تک ڈونلڈ ٹرمپ خود گریٹ بن جائیں گے۔مبارک ہو جناب!۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے دور میں نسل پرستی اور قتل کے واقعات بے قابو ہو جائیں گے۔ 2024تک امریکی عوام میں یہ جذبات شدت سے ابھریں گے کہ مذہب کے نام پر ان کا ملک کمزور ہورہا ہے، ذاتی سوچ بدلے گی،امریکی ریاستیں مادہ پرست ہو جائیں گی۔ امریکہ کی ساکھ پہلے جیسی نہیں رہے گی ۔یہ سوچ امریکی عوام کو ڈیموکریٹس کے قریب تر کر دے گی۔اتنا قریب کہ وہ ری پبلیکنز کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیں گے۔ 2024ء میں ڈیموکریٹس پوری طاقت سے اٹھیں گے اور براعظم امریکہ پر چھا جائیں گے۔
ایک رپورٹ کے مطابق’’امریکی سکولوں میں روزانہ صبح مذہبی تعلیم کو جاری رکھنے والوں کی تعداد 70فیصد سے کم ہو کر 66 فیصد رہ گئی ہے۔گیلپ پول کے مطابق امریکہ میں مذہب کے حامیوں کی تعداد دن بدن کم ہو رہی ہے۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں چرچ خالی ہو رہے ہیں ۔ 14جنوری کو شائع ہونے والے مضمون ’’A New Solutuion for America,s Empty Chruches‘‘ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں امریکہ میں خالی گرجا گھروں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔کئی گرجا گھروں کو اپارٹمنٹس میں بدل دیا گیا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں صدر ٹرمپ کے آنے سے مذہب کا عمل دخل بڑ ھ گیا ہے لیکن مستقبل میں یہ کم ہو جائے گا۔
قاتل مودی سے کب جان چھوٹے گی ؟
بھارت میں نریندر مودی کا نعرہ اگلے انتخابات میں بکے گا، وہ 2024ء کی باری لینے کامیاب ہوسکتے ہیں، اصل ’’اقتدار‘‘ ان سے روٹھا رہے گا۔ حکومت کئی بار ٹوٹتے ٹوٹتے بچے گی۔ دو برس ڈانواں ڈول رہنے کے بعد 2026ء کے قریب نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا اقتدار ختم ہونے کا امکان ہے۔ یہ پارٹی بھگوان کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری میں خود ہی دفن ہو جائے گی۔ ستاروں کے مطابق نریندر مودی پر قاتلانہ حملے کااندیشہ ہے۔ تامل ہندوئوں کے ساتھ دشمنی انہیں مہنگی پڑ سکتی ہے۔ جنہیں منظم دہشت گردی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ’’کرائسز گروپ‘‘ کے مطابق تامل ہندوئوں نے دنیا بھر میں دہشت گردی کو منظم سنڈیکیٹ کی شکل دی ۔ لیکن رام کے انتہا پسند قاتلوں نے دنیا کو یہ کبھی بتایا ہی نہیں تامل ہندو ہیں ، پکے ہندو۔رام کے دہشت پسند پجاری۔ آر ایس ایس کی طرح یہ بھی تمام غیر ہندو ئوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔ ہمارے خطے میں دہشت گردی تامل ہندوئوں نے ہی پھیلائی۔ انہیں دہشت گردی کی ماں کہا جاتا ہے۔’’کرائسز گروپ‘‘ کی رپورٹیں ان حقائق کی گواہ ہیں۔
برطانیہ میں کیا ہو سکتا ہے؟
برطانیہ میں جغرافیائی سوچ بدلی ہے۔ مختلف علاقوں کی ترقی اور دولت کی فراوانی میں نمایاں فرق کو نئے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔جیسا کہ لندن ریجن اور ’’لندن سے باہر کا برطانیہ‘‘، اس سوچ میں کمی آئی ہے۔ لیکن ایک سروے میں سکاٹ لینڈ میں صرف15فیصد باشندوں نے خود کو ’’انگلش‘‘ بتایا ہے۔ 31 فیصد نے پاکستانی نژاد اور اتنے باشندوں نے خود کو سکاٹش لکھا ہے۔ اصل انگلش باشندے صرف 13فیصد ہیں۔ بریگزٹ برطانیہ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا لے گا۔ نیل ایشرسن (Neal Ascherson) نے اپنے مضمون ’’The long Brexit ordeal will finish off the break-up of Britain‘‘ میں لکھا ہے کہ نئے ریفرنڈم سے برطانوی معاشرے میں پہلے جیسی تقسیم نظر نہیں آئی۔ بریگزٹ کی تکالیف کے بعد اچھا وقت آئے گا۔ اس عمل سے برطانیہ کی یک جہتی میں اضافہ ہو گا۔ بریگزٹ کے بھونچال نے برطانیہ کو توقع سے بڑھ کر متاثر کیا ہے، سب سے بڑھ کریہ کہ انگریز ہونے پر بھی زد پڑی ہے، شرفاء کی بے اختیاری اور اپنے خلاف جذبات سے یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتھا ۔ 10برس قبل بینکاری نظام کی بربادی سے یہ سو چ کسی وبا کی طرح پھیلی ہے۔ بریگزٹ کی پریشانیوں نے اس عمل کو تیلی دکھائی ہے۔ یہ درست ہے کہ 2016ء کے ریفرنڈم میں برطانیہ میں نئی تقسیم تو نہیں ہوئی لیکن پرانے جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔ حیران کن طور پریہ ملک طاقت ور طبقات اور گروپوں میں بٹا ہوا ملک ہے۔ یہ ملک علاقائی تقسیم کا بھی شکارہے۔
بریگزٹ سے جھوٹ کا پردہ فاش
2010ء سے وہاں ایک شرمناک حرکت ہو رہی تھی،جھوٹ کواستثنیٰ ملتا جارہا ہے ۔کنزر ویٹیو جماعت نے خوفناک مالیاتی بحران کا ذمہ دارلیبر پارٹی کے پبلک اخراجات کو ٹھہرایا، ان کے بقول اس سے بینکاری نظام بیٹھ گیا تھا۔ یہ کھلا جھوٹ تھا ۔ مگر اس جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی جرأت کسی میں نہ تھی۔ کروڑوں افراد نے اس جھوٹ پر یقین کیا ، شائد آج بھی کرتے ہیں۔ بریگزٹ نے اسی جھوٹ کے خلاف بند کو توڑ دیا ہے۔ جھوٹ کا پردہ فاش ہونے پر وزیر اعظم بورس جانسن خوش ہیں اب کوئی انہیں ناجائز تنگ نہیں کر سکے گا‘‘۔
دنیا کا تھانیدار کون؟
ایک اہم سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سپر طاقت، دنیا کا تھانیدار کون ہوگا؟ یہ سچ ہے کہ عسکری اعتبار سے دنیا بدل جائے گی۔ امریکہ بلاشبہ تھانیدار ہی رہے گا مگر روس اور چین کی مجموعی طاقت اس کے لئے چیلنج بن جائے گی۔ وہ یورپ کا پسندیدہ ملک نہ ہوگا۔ دیرینہ ساتھی جاپان اور برطانیہ پانچ بڑے عسکری ممالک میں شامل نہیں رہیں گے یہ اپنا ملٹری رینک کھو دیں گے، ان کی جگہ فرانس اور بھارت پانچ بڑے عسکری ممالک شامل ہو جائیں گے ۔ امریکہ کا دوست بھارت چوتھے نمبر سے پانچویں پوزیشن پر گر جائے گا ۔فرانس اس وقت چھٹے نمبر پر ہے یہ بھارت کی جگہ لے لے گا۔ امریکہ نے روس اور چین کے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے یورپی ممالک کوفوجی اخراجات میں اضافہ کرنے کا ’’حکم‘‘ دیا ہے۔ فرانس پہلے ہی اپنے فوجی اخراجات بڑھا چکا ہے۔ وہ نیٹو کو مضبوط تر کرنے کے لئے 2.4 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے ۔ کئی امن مشن فرانسیسی فوج کے دم سے چل رہے ہیں، جو کئی مشکل عالمی آپریشنز میں بھی حصہ لے رہی ہے۔ وہ جرمنی کی مدد سے اگلی جنریشن کے طیارے بھی بنا رہا ہے۔ فرانسیسی اسلحہ ہلکی جنگ کے لئے موضوع ترین ہے۔ فرانس بھارت کو کہیں پیچھے چھوڑ دے گا کیونکہ بھارت اپنے ہی عوام کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ بھارت دفاع پر بھاری اخراجات کی مدد سے پانچ بڑوں میں شامل تو رہے گا ، لیکن 5ویں بڑی ملٹری پاور بن جائے گا۔ پے در پے اقتصادی بحران اسے خطرناک ملک بنا دیں گے ۔ بھارت کی پہچان عدم استحکام کا شکار ملک کے طور پر ہو گی۔ اربوں ڈالر کا اسلحہ اپنے ہی ملک میں استعمال ہونے سے عالمی رائے عامہ میں شور اٹھے گا۔کئی ممالک بھارت کو اسلحہ کی فروخت روک دیں گے ۔ بھارت روس ،یورپ ،امریکہ اور اسرائیل سے فوجی ساز و سامان خریدے گا لیکن چین سے کہیں پیچھے رہ جائے گا۔اسے امریکہ کی مدد حاصل رہے گی۔ بھارت کی اپنی دفاعی انڈسٹری کمزور ہے، وہ ملک میں دفاعی کارخانے نہیں لگا سکا۔ یہ صورتحال اسے مزید کمزور کر دے گی۔ چین کے ساتھ حالت جنگ میں ہونے سے اور دفاعی بجٹ ناقابل برداشت بوجھ بن جائے گا۔ امریکہ اور بھارت مل کرروس اور چین کا گھیرائو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چین عسکری حوالے سے روس سے آگے نکل جائے گا۔ وہ روس سے دوسری پوزیشن چھین لے گا۔ چین کی فوج افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی فوج ہو گی۔ آرمی کی طرح بحری فوج بھی جدید خطوط پر استوار ہونے لگے گی۔ چین مزید نئے ایئرکرافٹ کیریئرز اور جدید ترین سب میرینز بھی بنائے گا۔ چینی آندوزیں روس سے بہتر ہوں گی ۔ وہ روس سے دوسری بڑی بحری فوجی طاقت کا اعزاز بھی چھین لے گا۔ اوور سیز تربیت اور جنگی مشقوں کی وجہ سے چینی فوج امریکہ کے لئے چیلنج بن جائے گی۔
روس دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہے۔ لیکن چیچن اور جارجیا میں بغاوت کے بعد کئی داخلی کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ ایس 300، ایس400 طیارے امریکہ کو ایٹمی نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن تربیتی نظام کمزور اور پسماندہ ہے۔ عالمی پابندیوں کے باعث معاشی حالت دگرگوں رہی، اور وہ نئی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
اب رہ گیا امریکہ ۔ہر قسم کے نئی جنریشن کے ہتھیار بنانے کی وجہ سے امریکہ نمبر ون ہی رہے گا، بڑے مارجن سے۔ مضبوط معیشت اور دنیا کی سب سے موثر فوج اور فائر پاور نے اسے دنیا کا لیڈربنا دیاہے۔ جدید ترین ایس35 اسی سال بننا شروع ہو جائیں گے، یہ امریکہ کی فوجی تاریخ کا مہنگا ترین پروگرام ہے۔ امریکی آبدوزیں بہترین ڈیزائنز کی ہیں،زیر سمندر کثیر الجہتی آپریشنز میں بھی کام آتی ہیں لیکن ٹاپ فائیو ممالک کی پوزیشنوں میں تبدیلی سے طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ بھارت کے نیچے اور چین کے اوپر جانے کی وجہ امریکی مفادات پر زد پڑ سکتی ہے۔ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ ٹاپ فائیو ممالک میں یہ تبدیلی پر امن نہیں ہو گی، خاص طور پر بھارت کا نیچے آنا جنگ کی علامت ہے۔ اس کے ایٹمی ذخائر آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہیں۔ وزیر دفاع راج ناتھ کا بیان اسی سمت میں ایک قدم ہے۔
بورس جانسن بریگزٹ بحران سے بچ نکلیں گے
بورس جانسن مضبوط وزیر اعظم رہیں گے،وہ برطانیہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ۔دیکھو !آخر کارمیں نے آپ کے مسائل حل کردیئے ہیں۔ان کے سیاسی حریف ان کی طاقت کے آگے سر جھکا دیں گے۔ وہ مئی 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی اہم ہوں گے لیکن ایک رائے کے مطابق ان کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کا امکان کم ہے۔دوسری طرف لبرل پارٹی جوانوں کے ووٹ حاصل کر لے گی ، لیکن اقتدار کے دروازے بند رہیں گے، لبرل پارٹی اقتدار کے قریب ہوگی مگر 10ڈائوننگ سٹریٹ میں داخل نہیں ہو سکے گی۔اس میں فلور کراسنگ کا اندیشہ ہے، شائد عام انتخابات کی تاریخ قریب آنے پر ایسا ہو۔ بریگزٹ برطانیہ کے لئے مسلہ ہے نہ 31جنوری کوبنے گا۔ برطانیہ میں کچھ عرصہ بحران رہے گا، پھر جلد ہی گرد بیٹھ جائے گی، اور برطانیہ آگے کی جانب بڑھے گا۔سکاٹ لینڈ کا الگ ملک بننے کا امکان کم ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلتے ہی سکاٹش پارٹی کے لئے سیاست کرنا مشکل ہو جائے گا، سکاٹش نیشنل پارٹی کی سیاست کمزور ہوجائے گی۔اس جماعت کا کوئی سیکنڈل بھی سامنے آ سکتا ہے جو اسے لے ڈوبے گا۔مائیکل فراج کی سیاست بھی ٹوری پارٹی کے ہی ساتھ جائے گی، آج وہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ کہہ رہے ہوں مستقبل میں وہ وزیر اعظم بورس جانسن کا ساتھ دیں گے، یہ بھی ممکن ہے کہ وقت آنے پر وہ ٹوریوں کے ساتھ معاہدہ کر کے حکومت میں شامل ہو جائیں۔
ہانگ کانگ میں عالمی مشن کامیاب ہو گا یا نہیں؟
ہانگ کانگ کے شہریوں کو امریکہ کی جانب سے زیادہ حمایت ملنے کی امید نہیں۔ کئی طاقتور ممالک امریکہ ہانگ کانگ کے ساتھ نہیں ہیں۔ بڑے یورپی ممالک امریکی صدر ٹرمپ سے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کو تیار نہیں،ان سب کے اپنے دامن میں کئی چنگاریاں ہیں، آگ اندر ہی بھڑک رہی ہے، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ ہانگ کانگ میں انہیں فرانس کی حمایت ملنا مشکل ہے۔ وزیراعظم ایبے کو کئی امور پر امریکہ سے اختلاف بھی ہے۔ شمالی کوریا ان میں سے ایک ہے۔ شمالی کوریا کے میزائل اس کے شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ جاپان مذاکرات کی تفصیلات سے بھی لاعلم ہے، جاپانیوں کے لئے امریکہ قابل اعتبار ملک نہیں رہا۔ اسے اپنے تحفظ کی فکر ہے۔ جرمنی کئی مرتبہ امریکہ کے سامنے ڈٹارہا ہے۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں ( جرمن چانسلر اور امریکی صدر )کے مابین لفظی تصادم بھی ہوا۔ روس پہلے ہی چین کے قریب تر ہے، ابھی مزید قریب ہونا باقی ہے۔ امریکہ کا دیرینہ ہے حلیف برطانیہ اندرونی کش مکش کا شکار ہے۔ بریگزٹ گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے، اگلا جائے نہ نگلا جائے۔ دیگرممالک (فرانس، جرمنی ، کینیڈا، آسٹریلیا)کو بھی اپنی اپنی پڑی ہے۔ فرانس کی الگ پرواز ہے، وہ عراق امریکہ تصادم میں بھی دل سے امریکہ کے ساتھ نہیں تھا بلکہ جب اس نے ’’نہ‘‘ کر دی تھی تو امریکیوں نے جب اسے مشروب کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو فرانس امریکہ کے ساتھ ہو لیا،کچھ بد دلی سے۔ امریکی فرانسیسی مشروب کے رسیا ہیں،ان کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی ۔ فرانس نے یہ بھی نہ سوچا کہ ’’چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘، وہ ڈر گیاا ور عراق پر جنگ مسلط کرنے پر آمادہ اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہانگ کانگ کی جنگ امریکہ کو تنہا ہی لڑنا پڑے گی۔ اسی لئے امریکہ خود بھی ہانگ کانگ میں عملی مداخلت پر آمادہ نہیں۔ کئی عالمی ادارے چین میں مسلمانوں کی جاسوسی اور اسلام مخالف اقدامات پر چیخ اٹھے ہیں، یک آواز ہیں کہ چین میں مسلمانوں پر جبر بند ہونا چاہیے لیکن بھارت کے بارے میں ان ممالک کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہانگ کانگ کی تپش کو شعلہ بننے کا امکان نہیں۔ہانگ کانگ کی معاشی حیثیت اور سیاسی مقام کے پیش نظر کئی طاقتیں اسے چین سے الگ کرنے کی خوکی خواہش مند تو ہیں لیکن کرنا کچھ نہیں چاہتیں۔ البتہ ہانگ کانگ میں اندرونی تصادم گہرا ہوتا چلا جائے گا ۔ ہانگ کانگ پہلے جیساپک نک اور کمرشل ملک نہ رہے ۔
عالمی منڈیوں میں ایک اور کریش کی باتیں
کیا عالمی منڈیوں میں ایک اور کریش آنے والا ہے؟کچھ ماہرین کے نزدیک 1920ء جیسا معاشی بحران آ سکتا ہے جب عالمی معاشی نظام کریش کرنے سے عوام کی قوت خرید جواب دے گئی تھی۔ آخری کریش کے وقت جس مدت کی نشاندہی کی گئی تھی وہ دور شروع ہو چکا ہے۔6 بڑی علامتوں کے دور سے ہم گزر رہے ہیں،گریٹ ڈپریشن کی ایک علامت یہ ہو سکتی ہے کہ عالمی منڈیوں کی قدر20 ٹریلین ڈالر سے گر کر14ٹریلین ڈالر پر آجائے گی،معیشت 25 فیصد تک سکڑ جائے گی ،افرا ط زر 2فیصد ہو گا لیکن قوت خرید ختم ہونے سے گاہک غائب ہو جائیں گے ۔
2011ء میں سی این این کی جانب سے کرائے گئے سروے میں یہ بات عیاں ہوئی تھی کہ50فیصد امریکیوں کے خیال میں گریٹ ڈپریشن کی فضا ہموار ہو رہی ہے۔بڑی سٹاک منڈیوں میں کمی آ رہی تھی۔ مارچ 2008سے مارچ 2009ء کے درمیانی عرصے میں ڈائوسٹاک مارکیٹ میں نمایاں کمی آئی تھی۔2016کے آغاز میں بھی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے کئی سو ارب ڈالر ڈوب گئے تھے۔یہ 2015 سے بھی بڑا بحران تھا جب 70 فیصد امریکیوں نے اپنا کچھ نہ کچھ سٹاک مارکیٹ میں کھو دیا تھا۔ ماہرین کے خیال میں یہ 2008سے بھی بڑا بحران تھا،2018ء میں دوبارہ ڈائو مارکیٹ میں کمی آئی،بانڈز کریش کر گئے تھے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بحران کا شکار تھیں۔ دنیا بھر میں 65 فیصد روزگار چھوٹے کاروبار سے مل رہا ہے، کساد بازاری نے دنیا بھر میں چھوٹے کاروبار پر شکنجہ کس دیا ہے ، بحالی کی کوئی صورت نہیں ۔ چھوٹے کاروبار کے خاتمے سے ملک میں بے روزگاری کے عفریت کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔اقوام عالم میں جائیدادوں کا کاروبار جمود کا شکار ہے، قیمتیں کریش کر گئی ہیں،اس شعبے میں پھنسے ہوئے کئی ہزار ارب روپوں کے نکلنے کی ترقی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔اگر 1929میں آنے والے گریٹ ڈپریشن میں امریکی معیشت نہ اٹھتی تو آج ہر چوتھا آدمی نوکری سے محروم ہوتا، شرح بے روزگاری5 فیصد کی بجائے 25فیصد کو چھو رہی ہوتی ،شکریہ امریکہ۔۔ جس نے 1929ء میں عالمی معیشت کو سنبھال کر دنیا میں روزگار کے مواقع پیدا کئے تھے۔یورو کی قیمت میں اتار چڑھائو کے دور میں پائونڈ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔ گرانی کئی اقسام کی صنعتوں کولے ڈوبے گی ۔اگلے برس کئی اقسام کی امریکی اور یورپی کمپنیاں زوال کر جائیں گی۔ ادویات اور زراعت کے شعبوں سے منسلک کمپنیاں ترقی کے مراحل طے کر سکتی ہیں ، باقی سب بلبلہ ہے۔معیشت ،تعلیم اور صحت سمیت چند اہم شعبوں کے کچھ نکات ملاحظہ فرمائیں:
’’فارچون میگزین‘‘ میں موری باچک مین (Maurie Bacikman) نے لکھا ہے کہ ’’زیادہ تر سرمایہ کاروں کے مطابق 2020ء میں عالمی کساد بازاری کا اندیشہ ہے۔
عالمی بینک کے مطابق 50سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے قرضے 50برسوں میں اونچی ترین سطح پر جانے کی وجہ سے عالمی معیشت کا توازن بگڑ جائے گا۔یہ قرضے عالمی معیشت کے لئے خطرہ ہوں گے۔
جریدہ ’’فوربس‘‘ کے مطابق2020ء میں متعدد ممالک کی معیشت وسیع ہونے کی بجائے سکڑ جائے گی، جبکہ ایمرجنگ اور ترقی پذیر ممالک کے قرضے ان کی جی ڈی پی کے 170 فیصد کے برابر ہو جائیں گے۔یہ صورتحال خطرناک ہو گی۔
دنیا امیر اور غریب ممالک میں تقسیم ہو چکی ہے کیونکہ جمہوریت دولت کی تقسیم کا مساوات پر مبنی نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔دنیا بھر میں2153ارب پتی افراد کے پاس 4.60ارب افراد سے زیادہ دولت ہے جبکہ ایک فیصد امیر ترین افراد 6.90ارب افراد سے زیادہ امیر ہیں۔ خواتین کو ان کی محنت کا صلہ نہیں مل رہا ۔ان کے استحصال کی رقم فی گھنٹہ 12.5ارب ڈالر ہو چکی ہے ۔بھارت میں 9ارب پتی دولت مندوں کے پاس 50فیصد بھارتیوں کے برابر دولت ہے۔جبکہ وہاں ایک فیصد امیر ترین افراد کے پاس 70 فیصد آبادی کے برابر دولت جمع ہو چکی ہے۔یہ فرق مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ہر چوتھا گریجوایٹ بے روز گار ہے ۔(CMIE) کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بے روزگاری کا تناسب حکومت کی جانب سے بتائے گئے اعداد و شمار کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہے۔
جریدہ ’’فوربس‘‘ کے مضمون (Top 5 Trends that will disrupt Education in 2020)کے مطابق5بڑی تبدیلیوں کے باعث تعلیم کا شعبہ بر طرح متاثر ہو گا،تبدیلیاں لائے بغیر تعلیمی ڈھانچے کو وقت کے ساتھ چلانا مشکل ہو جائے گا۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق یونیورسٹیوں نے نصاب تبدیل نہ کیا تو مستقبل میں نئی لیڈر شپ سامنے نہیں آ سکے گی۔
‘’گلوبل سروسز بی ٹی گروپ‘‘ کے ایم ڈی برناڈٹے وہٹ مین کے مطابق کئی کروڑ افراد کو اپنی مہارتوں میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ بدلتے ہوئے حالات میں ان کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔
عالمی تجارتی جنگوں کا شکار کون بنے گا؟
چین ۔ امریکہ تجارتی جنگ تیز تر ہو جائے گی، تجارتی تصادم کے باعث کئی ممالک کی معیشت کا سکڑنا لازم ہوگا، یورپی ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے،اصل نقصان یورپ اٹھائے گا۔ جیسے دو دیوقامت بار بردار ٹرکوں کے درمیان ایک پتلی سی کار کچلی جاتی ہے ، یہی حال چین ۔ امریکہ اقتصادی تصادم میں یورپ کا ہونے والا ہے۔ جرمنی میں اس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جرمنی کو گریٹ ڈپریشن جیسی صورتحال کا سامناہے۔ اگرڈونلڈ ٹرمپ کی روح پھڑکی ،اور انہوں نے چینی کاروں پر اضافی ٹیکس لگا دیا تو نقشہ بدل جائے گا۔ جرمنی نے امریکہ کے ساتھ ساتھ چین سے بھی تجارتی تعلق قائم رکھا ہوا ہے۔ وہ یہ تعلق توڑنے کے حق میں نہیں۔ جرمنی نے سلوواکیہ، ہنگری اور پولینڈ کو اپنی منڈی سمجھ کر وہاںسرمایہ کاری کر رکھی ہے ، کاروں پر اضافی امریکی ٹیرف سے ان تینوں ممالک کی معیشت ڈوب جائے گی۔ عالمی بینک نے یہ خطرہ بھانپ لیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ جرمنی کو تجارت میں 47 فیصد کمی کاسامنا ہے۔ چین نے 19یورپی ممالک کو ڈالر کی بجائے یورو میں تجارت کرنے کی سہولت دی ہے ،ان ممالک کی حوصلہ افزائی کے لئے کم ٹیرف کا ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ امریکہ کی فیڈرل ریزرو پالیسی صنعت و تجارت کو جکڑ دے گی، بلیک ہول کی طرح۔ کئی ممالک کواقتصادی نقصان پہنچانے کے بعد امریکہ مزید طاقتور ہو کر نکلے گا۔ یورپ کے اندر بھی تجارتی جنگ تیز تر ہو گی۔ برطانیہ اور فرانس آمنے سامنے آ جائیں گے۔کینیڈا اور برطانیہ کے معاشی تصادم کی پیشن گوئی کرنا غلط نہ ہو گا۔
‘’منی اقوام متحدہ‘‘ بن رہی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان درجنوں ممالک الگ گروپ بنائیں گے
2020ء میں ایک نئی قسم کی سستی ترین انرجی بنے گی،ہم کلین انرجی انقلاب کے دور میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ اس میں بریک تھرو ممکن نظر آ رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد دنیا لاوا اگل رہی ہے، آسٹریلیا کی آگ اسی کا پیش خیمہ ہے۔ آسٹریلینز کے زیر استعمال مادہ جنگل میں نہ بجھنے والی خطرناک آگ کاباعث بنا۔کیمیکلز استعمال نہ ہوتے تو شائد آگ میں اس قدر شدت نہ ہوتی۔ مستقبل میں بہت زیادہ شہروں میں فضائی آلودگی480سے زیادہ ہو گی،یہ بہت عام ہو گی، اس لئے ماحولیاتی مسائل کو لے کر درجنوں ممالک اپنا الگ گروپ بنائیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ’’ منی اقوام متحدہ برائے ماحولیات‘‘ منظر عام پر آنے والی ہے۔ اگر ماحول کو بچانے والے آگے نہ بڑھے تو کل تباہی کی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے آنکھیں چرانے والا امریکہ اس میں جکڑا جائے گا، وہ خود بھی ماحولیاتی اصلاح کے لئے ’’عالمی گرین پارک‘‘کے قیام جیسے اقدامات کرے گا۔ مستقبل میں امیزون کے جنگل گرین پارک بن جائیں گے۔ماحولیاتی اصلاح میں برازیل کا کردار نظر انداز کرنا مشکل ہوگا،اس ملک کے وسیع و عریض جنگلات پر امریکہ سمیت سب کی نظر ہے۔برازیل جنگل بیچے گا، امریکہ اور یورپ خریدار ہوں گے ، نئی گرین لینڈ بستیاں وہیں آباد ہوں گی۔ پسماندہ افریقی ممالک کو براہ راست کی قیمت کی ادائیگی کے علاوہ امریکہ جنگلات کے بدلے وہاں معدیانت کی مفت تلاش اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی پیشکش بھی کر سکتا ہے،یہ پیشکش پورے افریقہ کو امریکہ کا غلام بنا دے گی ۔ انکل سام جنگل پر قابض ہونے کے بعد معدنی دولت پر بھی بیٹھ جائیں گے!
جدید ٹیکنالوجی سے پریشانیاں
مشینیں ( روبوٹس)کروڑوں لوگوں سے ان کے منہ کا نوالہ چھین لیں گے۔ بے روز گاری اس قدر زیادہ ہو جائے گی کہ امریکی صدر بھی اسکا رونا روئیں گے ، امریکہ کی جی ڈی پی نیچے آئے گی ،یورپ میں افرا تفری ہو گی،یورپی یونین کے اندر بھی معاشی تصادم ہو گاجس کے امکانات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ مسائل اس قدر گمبیر ہو جائیں گے کہ ان کے حل کا سرا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔واہ رے انسان۔ ۔ ۔ پھنس جائے گا اپنی ترقی کے جال میں!یہ تو سائنسدان مان رہے ہیں کہ دنیا بھر میں خطرناک طوفان اور زلزلے آ سکتے ہیں، آسٹریلیا کو دیکھیے، ترقی یافتہ ملک کہلانے والے آسٹریلیاکی ہر ٹیکنالوجی آگ پر قابو پانے میں ناکام رہی ۔ شہر کے شہر آگ کے رحم و کرم پر ہیں ۔ امریکہ کو دیکھئے ،موسم کی کرشما سازیوں نے سپر طاقت کو بھی بے بس کر دیا ہے۔
غیر ملکی جریدے کے مطابق مستقبل میں اے ون ٹیکنالوجی (مصنوعی ذہانت ) ایٹمی بٹن پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔اے ون ٹیکنالوجی پر بڑھتا ہوا انحصارایٹم بم پر کمپیوٹر کا کنٹرول قائم کر دے گا، دیگر نظاموں پر حاوی کمپیوٹر ایٹمی نظام پر بھی ’’قابو‘‘ پالے گا جس کے بعد دنیا میں فلم ’’ٹرمینیٹر‘‘ میں دکھائی جانے والی جنگ ہو سکتی ہے ۔ یہ دنیا کی تباہی و بربادی کا خوفناک منظر ہوگا۔ شکر کیجئے ، یہ دن دیکھنے کے لئے ہم اور آپ اس دنیا میں موجود نہ ہو ں گے۔
اس وقت دنیا کی آبادی 7.7 ارب ہے۔ اسی سال 6ارب لوگ (75 فیصد) آن لائن ہوجائیں گے۔ ہمارے ڈاکٹرصاحبان بہت محنت سے پڑھتے ہیں جس گھر میں ایک بھی ڈاکٹر بن رہا ہو، وہاں کئی کئی دن رت جگا رہتا ہے۔ وہ امتحانات کی تیاری میں کئی کئی دن سو نہیں پاتے، نیند آنکھوں سے اڑ جاتی ہے۔مستقبل میں اس پیشے میں تبدیلیاں جنم لیں گی۔فون فون نہ ہو گا، کئی کام اسی ایک سیٹ سے ہو جائیں گے ،یہی ڈاکٹر بھی ہو گا اور وکیل بھی۔ تجربہ گاہ بھی اسی فون میں نصب ہو گی۔ چہرے کی شناخت علاج میں استعمال کے دروازے کھول دے گی۔ ڈپریش دنیا کا سب سے بڑا مسلہ ہو گا ،صرف روس میں 80 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ خودکار کاریں مارکیٹ میں آنا شروع ہو جائیں گی، گوگل بھی ٹسٹ کرے گا۔ جی 5ٹیکنالوجی گھر گھر کی ضرورت بن جائے گی۔ فیشل ریکی گیشن(چہرے کی شناخت) کا مطلب حکومت ہر شخص کوگھو رہی ہے، اس پر کئی ممالک میں پابندی لگ چکی ۔ چین یہ سافت ویئربرآمد کر رہا ہے،، اسے بنیادی انسان حق یعنی پرائیوسی کے منافی قرارد ے کرکئی ممالک اور امریکی ریاستیں بھی اس پر پابندی لگا دیں گی ۔
ڈالر کریش کرنے کی باتوں میں کتنی سچائی ہے؟
کچھ ماہرین کی نظر میں ڈالر کریش کر جائے گا،میری رائے میں یہ ممکن نہیں۔عالمی اداروں(آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک) کی بنیادی ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ کمزور ممالک کی ترقی میں کردار ادا کریں، بلکہ ان کا بنیادی فریضہ امریکی ڈالر کو تحفظ مہیا کرنا ہے ۔ ’’بریٹن دوڈز کانفرنس‘‘ میں تسلیم کر لیا گیا تھا کہ عالمی معیشت کی بقا کا راز ڈالر کے استحکام میں مضمر ہے۔ ڈالر کو مستحکم کئے بغیر مستحکم عالمی معاشی کاتصور بھی خام خیالی کے سواکچھ نہیں۔ تمام یورپی ممالک اس فیصلے میں شراکت دارہیں۔دو بڑے عالمی مالیاتی ادارے(عالمی بینک اورآئی ایم ایف ) اسی کانفرنس کے ہتھیار ہیں۔ یہ ادارے کسی بھی ملک سے ایسامعاہدہ کریں جس میں ڈالر کے استحکام کا راز مضمر نہ ہو،ممکن نہیں ۔ ایسی باتیں آپ کو بھولنا ہوں گی۔آئی ایم ایف کا کوئی معاہدہ مقامی کرنسی کی شرح تبادلہ گرائے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔پھر ہم جیسے تابعدار ممالک بھی ہیں نا ، اپنی معیشت کی قیمت پرڈالر کو سہارا دینے کے لئے۔پاکستان جیسے ممالک ڈالر کی بیساکھی بننے کو ہر دم تیار ہیں، ڈوبتے کوتنکے کا سہارا ،کے مصداق ہم ڈالر پر اپنی معیشت قربان کر دیں گے۔یوں ڈالر اونچی اڑان ہی رہے گا!ان حالات میں ڈالر کے کریش کرنے کی خبریں خواہش، خوش فہمی یا غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔