اسلام آباد: (ساجد چودھری) پارلیمنٹ میں زیر غور وراثتی سرٹیفکیٹ بل 2020 کو پہلے مرحلے میں اسلام آباد میں لوگو کرنے کی صورت میں بے نامی جائیدادوں، بے نامی اکاؤنٹس اور ان میں پڑی دولت اصل مالکان کی اولاد کو منتقل نہیں ہوسکے گی۔
ماہرین قانون نے اس حوالے سے موقف اختیار کیا ہے کہ اگر وراثتی نظام کو نادرا کے قانون سے منسلک کیا گیا تو ہر فرد کو اس کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ظاہر کرنا ہوگی اور انہیں نادرا کا حصہ بنوانا ہوگا اور خاندان کے وہ افراد جو ان کے رجسٹریشن فارم کا حصہ ہیں وہی صرف ان اثاثہ جات کی ملکیت کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس بل پر اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ پروانہ انصرام جائیداد سے متعلق الگ قانون کی ضرورت نہیں ہے اس کے لیے نادرا کے قانون میں ہی ترمیم ہونی چاہیے یا جانشینی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنی چاہیے اگر نادرا کے ساتھ وراثتی نظام کو لنک کردیا گیا تو جائیداد صرف ان کو ہی منتقل ہوگی جو ڈیٹا بیس کا حصہ ہیں جبکہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد اب بھی نادرا سے منسلک نہیں۔
دوسری جانب بل کی ایک شق کے نادرا صرف انہی افراد کو ورثا تسلیم کرے گی جو خاندان کے سربراہ کی اولاد کے طور پر نادرا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں اگر کسی نے اپنی دوسری شادی یا اولاد کو نادرا میں ظاہر نہیں کیا تو ان کے وراثت کے حقوق متاثر ہوں گے اگر وہ عدالتوں سے رجوع کریں گے تو قانونی راہ کی مشکلات بھی درپیش آئیں گے۔