معیشت سکڑ گئی، 18 ماہ میں ملکی پیداوار میں 41 ارب ڈالر کمی

Last Updated On 08 February,2020 09:23 am

لاہور: (رپورٹ: ذوالفقارعلی مہتو) پاکستان میں جاری معاشی کساد بازاری سے ملکی معیشت کا حجم سکڑنے کی رفتار مزید تیز ہوگئی ہے اور جولائی تا دسمبر 2019 کے 6 ماہ کے دوران کل ملکی پیداوار (ششماہی جی ڈی پی) کا حجم گزشتہ برس کے اس عرصے کے مقابلے میں 6 اعشاریہ 78 فیصد مزید کمی کے ساتھ 139 ارب 88 لاکھ ڈالر پر آگیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے 18 ماہ کے دوران مجموعی طور پرملکی معیشت 16 اعشاریہ 5 فیصد سکڑ گئی ہے۔ یعنی کل ملکی پیداواری سرگرمیوں میں لگ بھگ 41 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوگئی ہے۔

دنیا نیوز کی جانب سے حاصل کی گئی اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت خزانہ، سکیورٹریز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور دیگر سرکاری دستاویزات کے مطابق کساد بازاری کا پاکستان میں کاروبار کر رہی غیر ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر اثر نہیں پڑا اور 35 ملکوں کی تقریباً 1001 غیر ملکی کمپنیوں کے مجموعی منافع میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 10 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ اسٹیٹ بینک دستاویز کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان سے منافع کی مد میں 2 ارب 66 کروڑ 14 لاکھ ڈالربیرون ملک گئے۔ ان میں سے جولائی 2019 سے دسمبر 2019 تک کے عرصے میں پاکستان سے 83 کروڑ 63 لاکھ ڈالر منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا۔

مسلم لیگ نون کی 5 سالہ حکومت اور پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 18 ماہ کے دوران یہ کمپنیاں اپنی سرمایہ کاری کے بدلے میں 9 ارب 54 کروڑ ڈالر منافع کی مد میں بیرون ملک لے گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی عالمی سرمایہ کاری کی تازہ ترین رپورٹ سے کی گئی تحقیقات کے مطابق پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 42 ارب ڈالر ہے اور یہ 74 ارب ڈالر کے اثاثوں کی مالک بن چکی ہیں۔ جولائی 2013 سے دسمبر 2019 تک جو منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا اس میں ماچس سے موبائل فون اور بجلی و گیس سے کھانے پینے اور ادویات بنانے کی کمپنیاں شامل ہیں۔ بیرون ملک جانیوالا منافع سب سے زیادہ 2 ارب 43 کروڑ ڈالرغیر ملکی بینکوں، انشورنس اور لیزنگ کمپنیوں کا ہے۔

اس کے بعد موبائل فون کمپنیوں نے 1 ارب 31 کروڑ، خوراک کی کمپنیوں نے 74 لاکھ ڈالر، کاریں اور بسیں بنانیوالی کمپنیوں نے 64 کروڑ ڈالر، سگریٹ کمپنیوں نے ساڑھے 32 کروڑ ڈالر، کولا اور دیگر مشروبات ساز 36 کروڑ ڈالر، کیمیکلز 72 کروڑ ڈالر، ادویات ساز کمپنیوں نے 26 کروڑ ڈالر باہر منتقل کئے جبکہ تیل و گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیاں اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں کام کر رہی 5 ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت 34 بینکوں کی طرف سے اسٹیٹ بینک کو بھیجی گئی رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ ستمبر 2018 میں ان بینکوں کے نادہندہ قرضوں کا مجموعی حجم 652 ارب روپے تھا جو ستمبر 2019 تک 122 ارب کے اضافے سے 774 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سب سے زیادہ نادہندگی نیشنل بینک سمیت 9 سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرضوں پر کی گئی ہے جن کے نادہندہ قرضے 93 ارب سے بڑھ کر 153 ارب روپے ہوگئے ہیں۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نو منتخب صدرمیاں انجم نثارنے کہا کہ ملکی معیشت کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور بینک قرضوں کی نادہندگی اس بات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے جب تک بینک قرضوں پر شرح سود 13 اعشاریہ 25 فیصد سے کم اور بجلی کم ازکم 5 سینٹ فی یونٹ سستی نہیں ہوتی کساد بازاری کا رجحان کم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان بزنس کونسل کے ایک بڑے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی شدید بحران کا شکار ہیں اور پاکستان میں دونوں بڑی کار ساز کمپنیاں شدید مشکلات میں ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف رینیو کے سابق ممبر مصطفیٰ اشرف نے کہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کوٹیکسوں میں بعض جگہ پر چھوٹ حاصل ہے لیکن پاکستان سے کمایا گیا منافع 29 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر ہی بیرون ملک لیجایا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ غیر ملکی کمپنیوں کی اشیا کے مشہور برانڈزکی پاکستانی اشیا پر اجارہ داری کے باعث ان کے کاروباری حالات نسبتاً بہتر ہیں اور مندی کے حالات میں بھی وہ منافع کما رہی ہیں۔

 

 


 

Advertisement