لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) دوستوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوست وہ جو مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو، مشکل وقت میں جب سارے رشتے ریت کی دیوار بن جاتے ہیں وہاں ایک سچا اور کھرا دوست چٹان کی مانند آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا نظر آتا ہے اور جب دوستی کے رشتے میں سچائی، محبت اور لگن بھی شامل ہو تو یہ رشتہ چیلنجز سے نجات کا بھرپور ذریعہ بن جاتا ہے، دوست سچے اور کھرے ہوں تو سفر آسان اور منزل قریب آ جاتی ہے، یہ سب کچھ ترک صدر طیب اردوان کے دورہ پاکستان اور پاکستان کے حوالے سے ان کے خیالات اور جذبات کے اظہار کے بعد سامنے آیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارے لئے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے ، ہماری دوستی عشق اور محبت سے پروان چڑھی۔
ہمارے درمیان مذہب، ثقافت اور اقدار کے رشتے ہیں۔ ان کی جانب سے یہ اعلان کہ ایف اے ٹی ایف میں دباؤ کے باوجود پاکستان کا ساتھ دیں گے ظاہر کرتا ہے کہ انہیں اس دباؤ کا ادراک ہے جو پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے، پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان دراصل پیغام ہے کہ پاکستان پر دباؤ اور تحفظات بدنیتی پر مبنی ہیں، طیب اردوان اور ان کی جماعت کا کردار دیکھا جائے تو انہوں نے 2002 کے بعد سے آج تک ترکی میں ڈیلیور کیا ہے۔ عزت سے جینے کا راستہ اختیار کر کے ترکی کو وہاں لاکھڑا کیا ہے کہ ہم سے ایک تہائی کے ملک ترکی کا جی ڈی پی ہم سے تین گنا زیادہ ہے۔
طیب اردوان نے کہا کہ کشمیر صرف پاکستان کا نہیں ہمارا بھی مسئلہ ہے۔ کشمیر ہمارے لئے وہ ہے جو پاکستان کیلئے ہے۔ کشمیر، فلسطین، شام اور عالم اسلام کے دیگر مسائل پر ترک صدر طیب اردوان کا واضح سٹینڈ یہ بتا رہا ہے کہ بعض عالمی خطرات اور امریکی تحفظات کے باوجود ان کا اصولی موقف ان کے اعتماد کا مظہر ہے۔ اس لئے کہ وہ آج کے ترکی کو معاشی اعتبار سے اس سطح پر لا چکے ہیں کہ وہ اپنے دوست اور دشمن کی تمیز کرتے ہوئے اس کا اظہار کر سکیں۔ ترک صدر نے جہاں پاکستان کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑے ہونے کا عندیہ دیا وہاں انہوں نے واضح کیا کہ اقتصادی ترقی دنوں میں نہیں آتی، اقتصادی ترقی مسلسل محنت اور جدوجہد سے ممکن ہوتی ہے ۔ ان کے یہ الفاظ ہماری قیادت کیلئے مشورہ کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آج کا پاکستان ایک جانب نیوکلیئر پاور ہے تو دوسری جانب اسے بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اقتصادی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس ایسی پالیسی نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنا رخ متعین کر کے اس جانب چلیں اور یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت برسراقتدار آنے کے باوجود ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس حکومت اور جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ رہے ہیں البتہ وزیراعظم اس عزم کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ 2020 کا سال عوام کیلئے خوشیوں کا سال ہوگا۔ عوام کیلئے خوشخبریاں ہوں گی۔ خدا کرے کہ ان کے دعوے سچ ہوں لیکن حکومتی سطح پر معاشی حوالے سے بڑھتے ہوئے تضادات اور بغیر کسی پلاننگ کے ہونے والے اقدامات کی وجہ سے معیشت ڈانواں ڈول نظر آتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو چاہیے کہ ترکی کے صدر طیب اردوان اور ترکی کی جمہوریت سے ہی کچھ سیکھیں۔ آج ترکی میں جمہوریت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس لئے کہ وہاں جمہوری حکومتیں ڈیلیور کرتی نظر آتی ہیں۔ وہاں اگر حکومت طیب اردوان کی جماعت کی ہے تو ان کی ضلعی حکومتوں کے سسٹم میں ان کے مخالفین کا غلبہ ہے، استنبول شہر کا میئر بھی ان کی مخالف جماعت سے ہے، انہوں نے کسی سے متھہ لگانے کی بجائے اپنی حکومت کو خدمت کا ذریعہ بنایا اور لوگوں کو فرق محسوس ہوا تو پھر عوام جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اب وزیراعظم عمران خان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فوج اس لئے میرے ساتھ کھڑی ہے کہ میں کرپٹ نہیں ہوں لیکن وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان کی ٹیم دیانتدار کیوں نہیں۔ وزیراعظم عمران خان فوج کی فکر نہ کریں وہ امانت کے ساتھ ہے مگر انہیں فکر 22 کروڑ عوام کی کرنی چاہئے جنہوں نے ان سے توقعات قائم کر رکھی ہیں۔ اگر وہ عوام کو مطمئن نہ کر پائے، ملک مسائل اور مہنگائی کی آگ میں جلتا رہا تو پھر ان کا انجام بھی سابق حکمرانوں سے مختلف نہیں ہوگا اور انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ کرپشن اور لوٹ مار اگر جرم ہے تو حکمرا نوں کی نااہلی اور ناکامی اس سے بڑا جرم ہے کہ اس کے اثرات ریاست پر ہوتے ہیں۔