لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کی جانب سے ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کو قابل عمل قرار دینے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر اس پر پسپائی اختیار کر لی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن موجودہ حالات میں کارگر نہیں ہو پائے گا بلکہ ملک کو درپیش مسائل خصوصاً اقتصادی اور سیاسی معاملات سے نمٹنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ عام انتخابات کی طرف رجوع کیا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا ملکی حالات نئے انتخابات کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟۔
خیال رہے مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر شہباز شریف نے اس بنیاد پر مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی دھرنا کا حصہ بننے سے انکار کیا تھا کہ وہ ایسی کسی صورتحال کا حصہ نہیں بننا چاہتے جس میں جمہوری سسٹم کیلئے کوئی خطرہ ہو، انہوں نے ان ہاؤس تبدیلی کا عندیہ دیا تھا مگر ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن اتنا سادہ نہیں جتنا وہ سمجھ رہے تھے کیونکہ اگر اکثریتی جماعت کی بنیاد پر ہی حکومتیں وجود میں آنی ہوں تو پھر اس بنیاد پر پنجاب میں خود ان کی حکومت بننی چاہیے تھی مگر معاملہ فہم شہباز شریف نے انتخابات سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ نئے بندوبست کے تحت مرکز اور پنجاب میں حکومتیں تحریک انصاف کی بنیں گی اور وہی ہوا کیونکہ حکومت سازی اور تبدیلی کے عمل میں ووٹوں کی اپنی حیثیت اور اہمیت تو ہے مگر اس کی نتیجہ خیزی کے حوالے سے بعض اور عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب تحریک انصاف کی حکومت اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے گرداب میں پھنسی نظر آ رہی ہے، عوامی و سیاسی سطح پر اس کے خلاف ردعمل موجود ہے خود حکومتی اراکین اسمبلی بھی حکومتی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں تو پھر آخر کوئی ایسی چیز ہے جس نے اپوزیشن کو ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن سے روک رکھا ہے اور یہ وہی قوت ہے جس نے پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ویسے بھی شہباز شریف کی جانب سے ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کو خود ان کی جماعت میں بھی پذیرائی نہیں مل رہی، خبریں آ رہی ہیں کہ لندن میں ہونے والی ایک مشاورت میں پارٹی کے قائد نواز شریف نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن قابل عمل نہیں، شفاف اور آزادانہ انتخابات کی گارنٹی کرتے ہوئے اسے یقینی بنائیں تو معاملات آگے چل سکتے ہیں، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسی مؤقف کی ترجمانی کرتے نظر آئے ہیں لہٰذا اب مسلم لیگ ن نئے انتخابات کے آپشن پر کاربند نظر آ رہی ہے۔
اس حوالے سے انہیں مولانا فضل الرحمن کے مؤقف کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، اپوزیشن نئے انتخابات کیلئے حکومت پر کتنا دباؤ ڈال سکے گی اس بارے میں حتمی طورپر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر حکومت کی اب تک کی کارکردگی کی بنیاد پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی اپنی ساکھ اور کارکردگی اسے دفاعی محاذ پر لے آئی ہے لیکن وہ کسی بھی قیمت پر مڈٹرم انتخابات کی جانب نہیں جائے گی ایک تبدیلی خود وزیراعظم عمران خان کے مؤقف میں یہ ضرور آئی ہے کہ انہوں نے آٹے، چینی کے بحران میں حکومتی کوتاہی کو تسلیم کیا ہے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے بجلی، گیس، پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کی تجویز پر بھی کام ہو رہا ہے، اس لئے فوری انتخابات ممکن بن سکیں گے فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ فی الحال ملک بدترین معاشی بحران سے دو چار ہے اس کی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو فکر کرنی چاہیے، اگر ملک میں اقتصادی صورتحال بحال نہیں ہوتی اور عوام کو ریلیف نہیں ملتا تو پھر حالات حکومت کے بس میں رہیں گے نہ مسائل زدہ عوام اپوزیشن کی طرف دیکھیں گے کیونکہ اب تک کی صورتحال میں اپوزیشن نے محض بیانات اور اعلانات کے ذریعہ کام چلانے کی کوشش کی ہے، جمہوریت میں بھی جمہور کی حالت زار میں بہتری نہیں آئی تو پھر لوگ کہاں جائیں گے یہ اہل سیاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔