اسلام آباد: (تجزیہ، خاور گھمن) حکومت وقت کو جتنے بحران ورثے میں ملے تھے اس سے زیادہ اس نے اپنی نا اہلی سے پیدا کیے ، سردست آٹا اور چینی بحران نے حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ پہلے پہل اس کا ذمہ دار بھی سابقہ حکومتوں کو قرار دینے کی کوشش کی گئی ، بات نہ بنی تو اپنے اندر جھانکنے کی زحمت گوارا کی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا کہ آٹے اور چینی کا حالیہ بحران حکومتی نااہلی کا نتیجہ ہے ، طلب اور رسد کا درست تخمینہ نہ لگایا جا سکا، جو کوئی بھی اس بحران کا ذمہ دار ہوا اس کو قرار واقعی سزا ملے گی۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ وہ آٹا اور چینی کے بحران کے پس پردہ کرداروں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی رہنماوں اور کارکنان کو ایک نوید یہ بھی سنائی کہ اب حالات مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہیں ، ہر گزرتے دن کیساتھ عوام پاکستان کو ترقی کی نئی منازل طے کرتے ہوئے دیکھیں گے ۔ ہر محب وطن پاکستانی کی یہی دعا ہے کہ وزیر اعظم کے الفاظ سچے ثابت ہوں اور وہ سب ہو جس کا خواب عمران خان نے عوام کو دکھایا تھا،لیکن کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پتیا ہے ۔ عوام کا حافظہ بھی کافی تیز ہو چکا ہے اس لیے لوگ عمران خان کے بیانات کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ یاد رکھتے ہیں لہٰذا وہ وزیر اعظم سے ان کے ہر بیان اور عمل کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔یہی جمہوری نظام کا تقاضا ہے ۔ آج سے ڈیڑھ سال پہلے عمران خان جو کہتے رہے ہیں ، عوام نے آنکھیں بند کر کے ا عتبار کیا اور اس کا اظہار ملک کے ہر حصے سے ووٹ دے کر کیا، لیکن حکومت کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی نے لوگوں کو مایوس کیا ہے ۔ اب اگر شہری وزیر اعظم عمران خان کے ہر اعلان کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ عوام کی نظر میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں، اس کا ادراک ہونے کی صورت میں ہی اس کا تدارک ممکن ہے ۔پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عوامی توقعات ٹوٹ رہی ہیں، لیکن اگر وزیر اعظم کے ارد گرد موجود لوگ ، انہیں یہی بتا رہے ہیں کہ ’’سب ا چھا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ ملک میں آپ کی مقبولیت پہلے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے ‘‘تو معذرت کے ساتھ اس کا نتیجہ زیادہ اچھا نہیں نکلے گا۔
پاکستان کے کسی شہر،قصبے یا دیہات میں چلے جائیں، لوگوں کو تحریک انصاف کے وعدے زبانی یاد ہیں ۔ وہ انہیںہی دہراتے ہوئے سوالات بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں جب عمران خان کے تازہ بیان کو دیکھتے ہیں کہ بالا آخر ڈیڑھ سال بعد سب کچھ ان کے کنٹرول میں آ چکا ہے تو زمینی حقائق اور اقتدار کی راہداریوں کی سن گن رکھتے ہوئے یہ باتیں ہضم نہیں ہو رہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وزیر اعظم اپنی موجودہ ٹیم سے کوئی قابل تعریف نتائج حاصل کر پائیں گے جو ان کی ساکھ اور پارٹی، دونوں کو مستقبل میں کسی بھی بحران سے بچا سکیں ،اور وہ باقی کے ساڑھے تین سال اچھے طریقے سے گزار سکیں۔ سب ایک ہی سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ کیا کپتان اپنی موجود ہ ٹیم کیساتھ غیر معمولی نتائج دے سکیں گے؟ بہت سے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم کے ارد گرد ’’فصل اجاڑنے والے پرندے ‘‘ اڑ رہے ہیں،کچھ کا کہنا ہے کہ وزراء نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے ۔ وزیر اعظم کی ٹیم کی جانب سے ڈیلیور نہ کرنے کی وجہ بھی حکومت میں گروہ بندی اور نا اتفاقی ہے۔
چوہدری نثار علی خان، نواز شریف کے وزیر داخلہ تھے تو عمران خان کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ ہیں۔ چوہدری نثار سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں ،کچھ لوگ ان کے طرز حکومت کو متکبرانہ بھی قرار دیتے ہیں لیکن وہ مکمل باختیار انتہائی محرک، تجربہ کار اور خلوص نیت سے کام کرنے والے وزیر تھے ۔ انہوں نے اپنی وزارت کو بھر پور طریقے سے چلایا۔ دوسری جانب وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا زیادہ تر وقت شیخو پورہ اور ننکانہ صاحب میں ہی گزرتا ہے ۔اسلام آباد میں کبھی کبھی ہی نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد جیسے چھوٹے اور منظم شہر میں بھی جرائم بے قابو ہوچکے ہیں، سوال پوچھنے پر نجی محفلوں میںیہی جواب ملتا ہے ؟ وہ اتنا ہی کام کر رہے ہیں جتنا انہیں مینڈٹ ملا ہے ۔ نوازشریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے جنھیں ڈی فیکٹو وزیر اعظم بھی کہاجاتا تھا، اقتصادی معاملات کیساتھ سیاسی جوڑ توڑ میں بھی ان کا طوطی بولتا تھا، اہم بات کہ عوام میں حکومت کے خلاف کوئی بھی منفی تاثر ابھرنے سے پہلے ہی اس کے تدارک کے لیے شریف برادران کیساتھ سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تھے ۔ پوسٹر بوائے اسد عمر کو ہٹانے کے بعد وزیر خزانہ کے برابر اختیارات رکھنے والے وزیر اعظم کے مشیر خزانہ سابقہ دورر میں آزمائے ہوئے عبد الحفیظ شیخ ہیں،جو مہنگائی کے مارے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوتے ہوئے300 روپے کلوبکنے والے ٹماٹر کی قیمت17 روپے بتاتے ہیں ۔ شبر زیدی کو ٹیکس وصولیوں کے لیے لایا گیا۔ ذرائع کے مطابق ان کیساتھ شیخ صاحب کی بن نہ سکی اور بات بیماری اور پھر طویل رخصت تک جا پہنچی۔
ن لیگ کے دور میں احسن اقبال وزیر برائے منصوبہ بندی تھے ،ان کے کام کے حوالے سے بھی بعض اعتراضات کیے جا سکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بااختیاروزیر تھے ۔ تحریک انصاف کے پہلے وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو بختیار تھے اور اب اسد عمر کو لایا گیا ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اسد عمر کچھ بہتر کر پائیں گے لیکن اس کے لیے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ انکے تعلقات انتہائی اہم ہیں جن میں فی الحال اگر سرد مہری نہیں تو کوئی گرم جوشی بھی نہیں ۔ نواز شر یف کے وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے اپنی اپنی وزارتیں متحرک انداز میں چلائیں اور الزامات کے باوجود توانائی بحران پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ کپتان عمر ایوب صاحب کے ذریعے بجلی کے معاملات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ق لیگ اورن لیگ کے بھی وزیر رہے ۔ اسی طرح وزارت پیٹرولیم ندیم بابر صاحب دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے اوپر ایک اور کمیٹی بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اختیارات کی جنگ جاری ہے ۔ ان حالات میں اب یہ عمران خان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی اس ٹیم کیساتھ عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامعہ پہنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟۔