لاہور: (رپورٹ:ذوالفقارعلی مہتو) پاکستان ریلوے کے موجودہ وزیر شیخ رشید کے دور میں ایک طرف ٹرین حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے تو دوسری طرف یہ المناک حقیقت کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ سینکڑوں انسانی نگل جانیوالے ان حادثات کی 64 فیصد انکوائریاں فائلوں میں دب کر رہ گئی ہیں اور مختلف ریلوے ڈویژنوں میں زیرالتوا پڑی ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے دور 2018ء اور2019ء میں ہونیوالے 290 چھوٹے، بڑے حادثات میں اب تک 193 سے زائد افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
دنیا نیوز کو دستیاب ریلوے کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ 2014ء سے اب تک ہونیوالے حادثات کی انکوائریوں میں 96 فیصد ایکسیڈنٹس کا قصور وار گریڈ 1 سے گریڈ 16 کے چھوٹے ملازمین کو قرار دیا گیا جبکہ مجموعی طور پر ذمے دار قرار دئیے گئے 427 اہلکاروں میں سے گریڈ 17 یا اس سے زائد کے صرف 17 افسر قصورواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ان 17 افسروں میں تیزگام آتشزدگی کیس کے سابق ڈپٹی ڈی ایس کراچی جمشید عالم اور ڈی سی او جنید اسلم بھی شامل ہیں جن کو ایف جی آئی آر کی رپورٹ پر از سر نوانکوائری جاری ہونے کے باوجود چارج شیٹس دیدی گئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید کے دور میں اب تک پھاٹک کے بغیر والی کراسنگز پر روہڑی کے قریب پاکستان ایکسپریس کو پیش آنیوالا یہ 55 واں بڑا حادثہ ہے اس سے پہلے ان کرانگسز پر 2016ء ریلوے پربھاری ترین سال رہا جس کے دوران ایسے 50 حادثات رونما ہوئے۔ دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ 2018ء سے اب تک 92 بڑے حادثات کی زیر التوا انکوائریوں میں سے کراچی ڈویژن میں سب سے زیادہ 24، اس کے بعد لاہور اور سکھر ڈویژنوں میں 19، 19، ملتان ڈویژن میں 16، راولپنڈی ڈویژن میں 8 جبکہ کوئٹہ اور پشاور ڈویژنوں میں ایک، ایک انکوائری فائلوں کے ڈھیر میں دبی ہوئی ہے۔