لاہور: (محمد حسن رضا سے) پنجاب کے 42 ترجمان، بعض سرکاری خزانے پر بوجھ بن گئے، کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام، حکومتی ترجمان کے آگے ترجمان، پھر ان کے بھی آگے سے ترجمان منظر عام پر آگئے، متعدد ترجمان مگر بولنے کو کچھ نہیں، کہتے ہیں سفارشی لگے لیکن سوال سخت نہ کریں، چند وزرا میڈیا کا سامنا کرتے ہیں، باقی سب صرف پروٹوکول اور عہدے کے دکھاوے تک محدود ہو گئے، بعض ترجمانوں نے سرکاری پی آر اوز، اسسٹنٹ، گاڑیاں اور پروٹوکول بھی رکھ لیا، پنجاب کے بعض ترجمانوں نے وزیراعلیٰ آفس میں ڈیرے جمالئے۔
انتہائی حساس اجلاسوں میں بھی ترجمانوں کو شامل کیا جانے لگا، بعض ترجمانوں نے سی ایم آفس اور دیگر دفاتر میں بیٹھ کر اختیارات استعمال کرتے ہوئے مختلف افسروں کو فون کر کے کام کروانے کیلئے پریشر میں لانا شروع کر دیا، بعض وزرا اور بیوروکریسی نے اجلاسوں میں غیر متعلقہ افراد کی شرکت او ربلاوجہ ترجمانوں کی فہرست بنانے پر شدید اعتراضات اٹھا دیئے، پنجاب میں غیر ضروری اور بغیر کسی پالیسی کے وزرا سے ہٹ کر کچھ ایسے ترجمان بنا دیئے گئے ہیں جن کو نہ تو پالیسی اور نہ ہی قوانین اور محکمانہ کارکردگی بارے علم ہے، سفارشی اور سیاسی بنیادوں پر ترجمانوں کی ایک سال قبل فہرست جاری کی گئی جس کے بعد متعلقہ افراد نے ان عہدوں کو میرٹ سے ہٹ کر استعمال کرنا شروع کر دیا جس کی شکایات پنجاب کے متعدد سیکرٹریز کی جانب سے بھی اعلیٰ حکام کو لگائی گئی ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ مسرت جمشید چیمہ نے پالیسی اور میرٹ کے برعکس پی آر او توصیف صبیح کو رکھ لیا ہے اور وزیر اطلاعات کی میڈیا ایڈوائزر مسرت جمشید چیمہ نے اپنے باس کو آؤٹ کر دیا ہے اور اہم اجلاسوں میں مسرت جمشید چیمہ خود بیٹھنے لگی ہیں جبکہ فیاض الحسن چوہان کو اجلاسوں سے مکمل طور پر آؤٹ کر دیا گیا ہے اور بہت ہی کم اجلاسوں میں ان کو بلایا جاتا ہے، ندیم قریشی نے پنجاب کی سوشل میڈیا ٹیم سے صابر بخاری کو لیکر اپنے ساتھ پی آر او رکھ لیا۔ دوسری جانب فیاض الحسن چوہان نے قانون اور حکومتی پالیسی کے برعکس میڈیا ایڈوائزر مسرت جمشید چیمہ کو بھی رکھ لیا ہے جبکہ وزیر اپنا ایڈوائزر رکھ بھی نہیں سکتا۔
ذرائع سے معلوم ہوا کہ وزیراعلیٰ آفس کا عملہ ترجمانوں کے پروٹوکول پر لگ گیا ہے، اور مسرت جمشید چیمہ وزیراعلیٰ آفس میں بیٹھ کر سرکاری وسائل استعمال کرنے لگی ہیں وہاں ان کے خاوند جمشید چیمہ کو بھی ترجمان پنجاب حکومت بنا دیا گیا ہے، ذرائع بتاتے ہیں کہ ممبران اسمبلی اور نان ممبر ترجمان کے عہدے کا ناجائز استعمال کرنے لگے ہیں، پنجاب کے متعدد ترجمان حکومتی اقدامات بارے لاعلم رہتے ہیں، عائشہ نواز، سیمابیہ طاہر، مومنہ وحید، جمشید چیمہ، عاطف چودھری سمیت متعدد ترجمان بنائے گئے، ایسے افراد کو ترجمان بنایا گیا جن کو ترجمان کا علم ہی نہیں، ڈاکٹر زرقا، وقار طور، عظمیٰ کاردار، نذیر چوہان، عمر سرفراز چیمہ بھی پنجاب کے ترجما ن ہیں۔ پنجاب کے متعدد صوبائی وزرا حکومتی اور محکمانہ موقف دینے کو تیار ہی نہیں، مراد راس، سمیع اللہ چودھری سمیت پنجاب کے متعدد وزراغائب ہیں، ان سے ان کے محکموں میں ہونیوالی مبینہ کرپشن بارے موقف لیا جائے تو وہ بھی آنے کو تیار ہی نہیں ہوتے، یہاں تک کہ ان کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمان ہی نہیں ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا کہ پنجاب کے تقریباً 29 ترجمان ایسے ہیں جن کے پی آر او اور اسسٹنٹ موجود ہیں پہلے اسسٹنٹ فون اٹھاتے ہیں پھر پی آر او سے رابطہ ہوتا ہے اور پھر وہ ترجمان سے بات کرواتے ہیں، باقی سب مکمل طور پر غائب ہیں، ترجمانوں نے اپنے آگے دو، دو ترجمان رکھ ڈالے ہیں، جس سے پنجاب کے 47 محکموں میں ایک عجیب سے کیفیت طاری ہو چکی ہے، اس حوالے سے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہا ن کہتے ہیں کہ ان کو اس لئے ترجمان بنایا گیا تھا تا کہ وہ میڈیا پر آسکیں، متعدد افراد ایسے ہیں جو وسائل استعمال نہیں کر رہے، جن اجلاسوں میں بلایا جاتا ہے میں وہاں پر موجود ہوتا ہوں، جبکہ مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا مجھے وزیراعلیٰ نے ذمہ داری دی ہے ان کی ترجمان ہوں، سرکاری وسائل استعمال نہیں کر رہی، میں تو اپنی گاڑی استعمال کرتی ہوں، اگر پی آر او ہے تو وہ وزیراعلیٰ آفس کا سٹاف ہے ان کی ذمہ داری ہے وہ میرا کام بھی کرتے ہیں، مسرت جمشید چیمہ نے کہا اجلاسوں میں عثمان بزدار خود مجھے بلاتے ہیں تو میں جاتی ہوں، مجھے اس لئے بلاتے ہیں کہ میں حکومت کی ترجمان ہوں، اگر باقی اتنے قابل ہوتے تو وزیراعلیٰ انہیں بھی اجلاسوں میں بلاتے، اس پر مزید میں کچھ نہیں کہہ سکتی، توصیف صبیح نے کہا میں مسرت جمشید چیمہ کے میڈیا کے معاملات دیکھتا ہوں، ان کی ہونیوالی میٹنگز کو میں دیکھ کر انہیں آگاہ کرتا ہوں، کیونکہ میری یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ آفس کے اہم عہدیدار بتاتے ہیں کہ پنجاب میں صرف ایک ہی ترجمان ہیں باقی کوئی ترجمان نہیں، غیر ضروری افراد کو اب اجلاسوں میں نہیں بٹھائیں گے ، اس پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ کون اجلاس میں آئے گا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ بعض ترجمان جو کہ پارٹی ممبر ہیں جن کو ترجمان بنایا گیا ہے ان کو ان آفیشل طور پر گاڑیاں اور سرکاری سہولیات دی گئی ہیں جس پر محکموں کے افسروں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے تھے، پنجاب حکومت کے ترجمان اور پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن ندیم قریشی کا کہنا تھا کوئی بھی ترجمان سرکاری وسائل استعمال نہیں کر رہا اور سرکاری خزانے کی بچت کی جارہی ہے ایسے افراد جو ترجمان پنجاب حکومت کے معیار پر پورا نہیں اترتے انہیں نہیں ہونا چاہئے۔