لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) کورونا وائرس کے پاکستان پر اثرات کے حوالے سے جو خدشات اور خطرات ظاہر کئے جا رہے تھے وہ اب حقیقت کا رنگ پکڑ رہے ہیں۔ اب متاثرین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی ان کا امتحان شروع ہو چکا ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کیا کورونا وائرس کے حوالہ سے ہمارے انتظامات کارگر ثابت ہوں گے۔ اس حوالے سے مسائل کے خاتمہ کیلئے وسائل کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ کورونا کے اثرات کس حد تک ملکی معیشت، روزمرہ کے معاملات پر اثرانداز ہوں گے۔ کیا ہماری حکومتیں ادارے اور زندگی کے مختلف طبقات اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔ آزمائش اور پریشانی کے وقت میں بے شک لیڈر قوم کو صبر اور آزمائش سے مقابلہ کا راستہ دکھاتے ہیں مگر وزیراعظم نے عوامی مسائل اور سیاسی و معاشی مشکلات پر آئے روز نہ گھبرانے کی بات دہراتے رہتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے کوئی نہ کوئی کڑوی گولی قوم کو کھلا ڈالتے ہیں اور یہ طرزعمل ان کی عادت اختیار کر چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں لوگ ان پر صحت اور بیماریوں سے لڑنے کے معاملے میں بے پناہ اعتماد کرتے ہیں۔ شوکت خانم جیسا زبردست ادارہ ان کی ذات پر عوام کے اعتماد کا نتیجہ ہے مگر 26 کروڑ لوگوں کے شب و روز کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آن پڑی ہے جس میں وزیراعظم بظاہر بری طرح ناکام ٹھہرے ہیں۔ چاہے وجوہات اس کی جو بھی ہوں۔ لوگ چار دن کورونا وائرس کے خوف سے دبک جائیں گے اور ان کی توجہ کچھ عرصے کیلئے عمران خان کی حکومتی بدانتظامیوں سے ہٹ جائے گی مگر ہمارا مسئلہ آخرکار پھر وہی ہوگا کہ عوام نے عہد عمران میں کھویا زیادہ اور پایا انتہائی کم ہوگا۔
کورونا وائرس پر حکومتی اقدامات پہلے تو خاموش تماشائی کی طرح رہے ۔ چین میں پھنسے پاکستانی بچوں کو چین میں رہنے دیا اور یہی دلیل دی کہ ہمارے پاس تو شعبہ صحت کی صلاحیت بہت کم ہے لہٰذا ان بچوں کو پاکستان بلا کر کورونا وائرس کو دعوت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس اقدام کو ملک کے عوام نے بہت حد تک مناسب قدم سمجھا اور اس کے نتائج بھی نکلے اور پاکستان میں کورونا وائرس کے مریض بہت دیر بعد ظاہر ہوئے۔ اب چونکہ یورپ چین کے بعد اس موذی وائرس کا مرکز قرار دیا جا چکا ہے تو پاکستان ہر حوالے سے مغرب اور دوسرے ممالک سے جڑا ہوا ہے اور یوں پاکستان بے حد کوششوں کے بعد بالآخر اس کا شکار بنا ہے۔ زیادہ تر لوگ زائرین ہیں جو ایران میں مقدس مقامات کی زیارات کیلئے جاتے ہیں اور کچھ مغربی ممالک سے آئے ہیں جن کی ٹریول ہسٹری ہے۔ حکومت کے اقدامات بڑی فیصلہ ساز میٹنگ کے بعد درست ہیں اور ہر حوالے سے عوامی اور سماجی رابطے کو روکنے کیلئے اچھے فیصلے کئے ہیں لیکن اس تمام صورتحال وفاق اور تینوں صوبوں کے بجائے سندھ پہلے ہی سے کرونا کے خلاف ایک سنجیدہ لڑائی لڑنے میں مصروف تھا جو کہ غیر متوقع طور پرسامنے آیا اور اس لڑائی میں سندھ کی صوبائی حکومت بظاہر اکیلی کھڑی نظر آئی اس میں وفاق کا کردار ایک خاموش تماشائی کا تھا۔ سندھ حکومت چیختی رہی کہ ملک کے داخلی پوائنٹس پر کوئی موثر چیکنگ کا انتظام نہیں اور ائیرپورٹس وفاقی کنٹرول میں ہیں۔ مگر وفاقی حکومت کو کوئی ہوش نہ آیا۔
بہرحال اب قومی سطح پر صحت ایمرجنسی لگ چکی ہے تو اس لیے کورونا کے مریض بھی سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت کو ہر سطح پر ایک ملک گیر سماجی آگاہی کی مہم چلانا چاہیے۔ جس سے مرض کے وائرس کے حوالے سے آگاہی اور شعور بھی ہو اور ہمارے صدیوں سے سماجی رویوں پر بھی تعلیم ہو۔ ہاتھ ملانا’ گلے ملنا’ پبلک مقامات پر بلا دھڑک جانا’ غیر ضروری طور پر ہر جگہ تماش بینی کیلئے اکٹھے ہو جانا’ حکومتی اور محکمہ صحت کے حفاظتی اقدامات اور ڈسپلن کو خاطر میں نہ لانا یہ سب ہمارے سماجی رویے ہیں جن سے ہمیں ہمیشہ سے سامنا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مریض کو سب سے علیحدہ رکھنا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ ایک تو مشترکہ فیملی سسٹم ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ مریض کے معاملے میں مروت ہے۔ ہمیں اس بیماری سے خود کو اور خاندان سمیت معاشرے کو بچانا ہے تو سب سے اہم کردار سماجی ذمہ داری کا ہوگا۔ کورونا سے لڑائی اور فتح صرف ایک قوم بن کر یکسوئی سے لڑائی میں ہے نہ کہ خوفزدہ ہو کر صرف اپنا بچاؤ دیکھنا ہے اور معاشرے سے صرف نظر برتنا ہے۔ ابھی تک دیکھنے میں آیا ہے لوگ آنے والے دنوں کے خوف میں ادویات اور ماسک کی قلت خود پیدا کر رہے ہیں۔ اشیائے خوردونوش کے بارے میں ان کا رویہ یہی ہے کہ آخری بار خریداری کر لی جائے پتہ نہیں بعد میں کیا ہو جائے ۔ یہ تمام رویے حکومت کے تمام اقدامات کو فیل بھی کر سکتے ہیں۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ صرف حفاظتی اقدامات کا اعلان نہ کرے بلکہ مارکیٹ اور ہسپتالوں اور میدان میں ہر جگہ خود نظر آئے اور ہر معاملے کو ڈسپلن اور میرٹ پر ریگولیٹ کرے۔ آخر میں محکمہ صحت کی صلاحیت پر ضرور بات کرنی چاہیے کیونکہ ہمارا شعبہ صحت ہر حوالے سے کمزور ہے ۔ ہم اپنے ڈی جی پی کا بہت کم حصہ صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی، ڈاکٹروں اور ادویات کی بھی کمی ہے۔ ایسے میں اگر یہ بیماری پھیل گئی تو پھر ہیلتھ میں پہلے سے مختص بجٹ کو ہنگامی طور پر بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کے پاس اچھے ڈاکٹروں کی کوئی کمی نہیں۔ صرف کمی ہے تو وسائل اور ہسپتالوں میں کمی کی ہے۔ ہسپتال بہرحال دنوں میں نئے نہیں بن سکتے مگر یہیں سے نقطہ آغاز ضرور ہو سکتا ہے۔ کورونا کے خدشات چونکہ اب حقیقت بن رہے ہیں تو اس کے خاتمے کیلئے وزیراعظم کو تمام صوبوں کو لیڈ کرنا ہوگا۔ اب کچھ تو بحیثیت قوم ہم نے کورونا کے خلاف لڑنا ہے اور احتساب کی مچلتی ہوئی خواہشات کو کچھ دن کیلئے دبانا ہوگا۔ اگر اس خوفناک وائرس میں ڈوبتی معیشت کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھ گیا تو پھر عوام کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ کورونا وائرس کے باعث ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ سیاست بہت پیچھے چلی گئی ہے اور وائرس سے بچاؤ کی تدبیریں تلاش کی جا رہی ہیں۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں معاشی بحران ایک کڑا چیلنج بن کر سامنے کھڑا ہے اور حکومت اپنے تئیں اس سے نہیں نمٹ سکتی اس لیے اسے لازمی طور پر اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لے کر بڑے فیصلے کرنے چاہئیں۔