لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے کہا ہے کہ حکمرانوں کے منہ سے نکلا لفظ قانون نہیں ہوتا، حکومت مستحقین کی مدد کے لئے رمضان کے بجائے ابھی سے ہی زکوٰۃ کٹوتی پر غور کرے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل، قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سیکرٹری صحت، سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر اور آئی جی جیل بھی پیش ہوئے۔
چیف جسٹس قاسم خان نے استفسار کیا کہ کیا وفاق اور صوبائی حکومت نے ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا، کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ؟ اگر قانون پر نہیں چلیں گے تو کچھ ٹھیک نہیں ہوگا، حکمرانوں کے منہ سے نکلا لفظ قانون نہیں، کتنے افراد بیرون ملک سے واپس آنا چاہتے ہیں اور ملک میں مستحقین کی تعداد کتنی ہے ؟ کوئی اعداد و شمار نہیں، یہ کام لوکل گورنمنٹ کا تھا لیکن لوکل گورنمنٹ کو یہاں چلنے نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس قاسم خان نے مزید استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کیسے قرنطینہ سینٹرز چلا رہی ہے ؟ پنجاب حکومت کے پاس 6 ہزار میڈیکل طلبہ کی فورس موجود ہے، اساتذہ میڈیکل آفیسر کی جگہ کیسے کام کرسکتے ہیں ؟ سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ میڈیکل طلبہ کو تیار رہنے کی ہدایات کر دی ہیں۔
جسٹس شاہد جمیل نے استفسار کیا کہ تفتان سے جو لوگ آنے تھے وہ پہنچے یا نہیں۔ سیکرٹری صحت نے بتایا کہ ہمارے پاس تفتان سے 3 بیج پہنچ چکے ہیں۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ تفتان سے جب لوگ آئے تھے، ان کو چیک کیا جاتا تو یہ حالات نہ ہوتے، وفاقی حکومت اس کی ذمہ دار ہے، پنجاب میں سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کے پاس کتنے وینٹی لیٹرز ہیں ؟۔
قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ مجموعی طور پر 1753 وینٹی لیٹرز موجود ہیں، چین سے ایک ہزار سے زائد وینٹی لیٹرز آ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی جیل سے استفسار کیا کہ پنجاب میں خواتین قیدیوں کی تعداد کتنی ہے ؟ آئی جی جیل نے بتایا کہ مجموعی طور پر 649 خواتین قیدی ہیں اور 42 خواتین قیدی بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔