وبا بڑھنے کا اندیشہ: وزیراعظم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

Last Updated On 02 April,2020 08:27 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کورونا کی وبا بڑھنے کے خدشے کا اظہار دراصل خطرے کی وہ گھنٹی ہے جس کا سب کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب حکومت کی طرف سے مسلسل اپنے اعلانات کے مطابق اقدامات کا سلسلہ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب کورونا کے متاثرین اور اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی صورتحال کے باعث متاثرین کیلئے اشیا خورونوش اور غذا کا مسئلہ بھی ہر آنے والے دن میں سر اٹھاتا جا رہا ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وزیراعظم کے خدشہ میں کس حد تک صداقت ہے کہ وبا بڑھے گی اور دوسرا یہ کہ حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود متاثرین اور اموات کی شرح کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ متاثرین کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ دہاڑی دار اور غریب لوگوں میں روٹی دال کا مسئلہ بھی خطرناک حدوں کو کیونکر چھو رہا ہے۔ کیا انہیں خوراک کی فراہمی ممکن نہیں بن پا رہی اور کورونا وائرس کے نتیجہ میں معیشت پر ہونیوالے اثرات کا حکومت مقابلہ کر پائے گی۔

جہاں تک وزیراعظم کے خدشہ کا سوال ہے تو اس کی بڑی وجہ یہاں ٹیسٹ کی سہولتوں کا فقدان ہے کیونکہ ٹیسٹ کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ کون اس وبا کا شکار ہے۔ سینئر ڈاکٹرز نے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹوں کی تجویز اور اس حوالہ سے اقدامات پر زور دیا ہے لیکن عملاً یہاں ہر شخص کا ٹیسٹ ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس امر میں دو آرا نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور خصوصاً ہمارا صحت کا سسٹم اتنی بڑی وبا کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا، ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھائے بغیر کورونا سے نجات اور سدباب نہیں ہو سکتا، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارا پالا ایک خاموش دشمن سے ہے۔ یہی وجہ ہے حکومت کی جانب سے بار بار خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں اور عوام کو ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور خصوصاً گھروں تک محدود رہنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ایک کنفیوژن ایسی ہے جس کی وجہ سے نہ تو مکمل لاک ڈاؤن ہو رہا ہے اور نہ ہی حکومتی احکامات اور اقدامات پر ان کی سپرٹ کے مطابق عملدرآمد، اور یہ خود وزیراعظم کی جانب سے پیدا ہوا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ منتخب وزیراعظم کے طور پر مکمل لاک ڈاؤن کے غریب عوام پر اثرات کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری جانب وہ کورونا کی وبا میں اضافہ کے خطرات اور خدشات ظاہر کرتے ہیں۔

زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ایک جانب لاک ڈاؤن ہے تو دوسری جانب ٹرانسپورٹ کی آمدروفت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے عوام کیلئے بعض سہولتوں کا اعلان خصوصاً اشیا ضرورت کی فراہمی کے عمل سے بھی یہ تاثر بن رہا ہے کہ اتنی سختی کی ضرورت نہیں۔ حکومتوں کی فکرمندی بہت اچھی ہے کیونکہ شہریوں کو بھوک سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن کورونا وائرس کے نتیجہ میں عوام کو ہلاکتوں سے بچانا اس سے بھی بڑی ذمہ داری ہے اور یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ عوام بھوک سے نہ مر پائیں تو کیا کورونا وائرس کی نذر ہو جائیں۔ ہر سطح پر کورونا کے خطرناک نتائج پر بحث جاری ہے۔ کورونا سے نجات حاصل کر کے ہم معاشی حوالہ سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اصل خبر جان ہے تو جہان ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑے بحرانوں، طوفانوں سے عبارت ہے۔ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد دنیا نے پاکستان کی امداد روک دی۔ اس کے بعد بہت سے مواقع آئے کہ پاکستان کے گرد پابندیوں کے جال بنے گئے۔ پاکستان اس صورتحال سے بھی گزر گیا۔ لہٰذا پہلی ترجیح کے طور پر کورونا سے نجات اور دوسری ترجیح کے طور پر معاشی بحالی کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔

معاشی خطرے سے نمٹنے کیلئے قومی قیادت کو وسیع مشاورت کے ساتھ بڑے موثر اور جرات مندانہ فیصلے کرنے چاہئیں۔ معاشی بحران سے نکلنے کا انحصار جلد از جلد کورونا سے نجات میں ہی ممکن ہے۔ کورونا سے پیدا شدہ صورتحال پر مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کو بھی عوام سے یکجہتی کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

Advertisement