پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن میں 31 مئی تک توسیع کر دی، نوٹیفکیشن جاری

Last Updated On 09 May,2020 11:33 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن میں اکتیس مئی تک توسیع کر دی جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ پنجاب میں تمام چھوٹی دکانیں ہفتے میں چار دن کھلیں گی۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے، صوبے میں 31 مئی تک لاک ڈاؤن رہے گا جس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

 نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب کے تمام بڑے شاپنگ مالز، تعلیمی ادارے بند رہیں گے، کنسٹریکشن انڈسٹریز میں الیکٹریکس، سٹیل، پمینیم کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت ہوگی۔

پنجاب حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ حجام اور سیلون بیوٹی پارلر اور جمنیزیم کھول دیئے گئے۔ پنجاب میں تمام چھوٹی دکانیں ہفتے میں چار دن کھلیں گی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق تمام کریانہ سٹورز، تندور، گراسری سٹورز، جنرل سٹورز صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلیں گے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق فروٹ اور سبزی منڈی ہفتے میں سات دن کھلی رہیں گی۔ تمام ریٹیل شاپس ہفتے میں چار دن کھولنے کی اجازت ہو گی۔ پوسٹل اور کورئیر سروسز بھی ہفتے میں سات دن کھلی رہی گی۔

پنجاب حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق لاک ڈاون کے دوران میرج ہال اور مارکیز بند رہیں گی۔ لاک ڈاون میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند رہے گی۔ کنسرٹ اور سپورٹس سرگرمیاں بھی بند رہیں گی۔

اس سے قبل پنجاب میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہفتے میں صرف چار دن لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے گی جبکہ تین دن مکمل ڈاؤن ہو گا۔

صوبائی وزیر اطلاعات نے واضح کرتے ہوئے بتایا کہ جن چار دن میں لاک ڈاؤن نرم ہو گا ان میں پیر، منگل، بدھ، جمعرات شامل ہیں جبکہ جس دوران صوبے میں مکمل ڈاؤن ہو گا ان میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے دن شامل ہیں۔ نرمی کے دنوں میں ساری دکانیں اور بازار کھلے رہیں گےِ۔بڑے پلازے، شاپنگ سینٹر پورا ہفتہ بند رہیں گے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ رمضان کا مہینہ ہے کاروباربھی چلانا ہے، ہم نے ریلیف دے کرمعیشت کا پہیہ بھی چلانا ہے، چاردن ریلیف کے دوران ایس اوپیزپرعمل کرایا جائے گا، تین دن سختی ہوگی۔

بلوچستان میں لاک ڈاؤن سمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل

ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کو سمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل کردیا ہے، مارکیٹس صبح 3 سے شام پانچ بجے تک کھلی رہیں گی، میڈیکل سٹور، دودھ دہی کی دکانوں کو استثنیٰ ہوگا، ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی۔

صوبے میں ایک دن کے دوران ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جو باعث تشویش ہے: مراد علی شاہ

 وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے فیز 2 میں جارہے ہیں عوام کی زندگی انکے اپنے ہاتھ میں ہے۔

ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹوں میں ہم نے 5 ہزار 498 ٹیسٹ کیے ہیں جس کے بعد مجموعی ٹیسٹ کی تعداد 87 ہزار 108 ہوگئی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ایک ہزار 80 لوگ مثبت آئے جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے اور پہلی بار کسی ایک صوبے میں ایک دن میں ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اس کی بلندی کی طرف جارہے ہیں جو باعث تشویش ہے۔ اب تک ان نئے کیسز کے بعد صوبے میں مجموعی کیسز کی تعداد 10 ہزار 771 ہوگئی ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 24 گھنٹوں میں 80 لوگ صحتیاب ہوئے جس کے بعد یہ تعداد 2020 ہوگئی ہے جبکہ مزید 4 افراد بھی اپنی زندگی گنواں چکے ہیں جس کے ساتھ ہی مجموعی اموات 180 ہوگئی ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس وقت 8 ہزار 571 لوگ زیرعلاج ہیں، جس میں 7 ہزار 432 ہوم آئیسولیشن، 609 حکومتی آئیسولیشن سینٹر اور 530 مختلف ہسپتالوں میں ہیں جس میں 103 کی حالت تشویشناک جبکہ 23 وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

اعداد وشمار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی شہر تو ویسے ہی ایک ہاٹ اسپاٹ ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں جنوبی میں 143، شرقی میں 113، ملیر میں 133، وسطی میں 78، کورنگی میں 61 اور غربی میں 55 لوگ وائرس سے متاثر ہوئے۔ سندھ میں آنے والے 1080 کیسز میں سے 583 کراچی میں آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک بات جو باعث تشویش ہے وہ خیرپور میں 24 گھنٹوں میں مزید 265 لوگ متاثر ہوئے ہیں جس سے وہاں تعداد 519 ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خیرپور کا ایک تعلقہ پیرجو گوٹھ ہے جہاں 10 روز پہلے ایک مشتبہ خاتون سکول ٹیچر حیدرآباد سے آئی تھیں۔ جب وہ واپس آئیں تو ان کی طبیعت خراب تھی اور جب وہ ہسپتال میں گئیں تو وہاں ان کا علاج کیا گیا اور اسی دوران ان کا انتقال ہوگیا، تاہم ان کا کورونا کا ٹیسٹ نہیں کیا جاسکا تھا، اسی وجہ سے ان کی موت کو کورونا کی موت میں شامل نہیں کیا گیا۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ ان علامات کے ساتھ ایک موت ہوئی ہے تو فوری طور پر حکومت سندھ نے ان ڈاکٹرز کو اور خاتون کے گھر والوں اور جنازے میں شریک ہونے والوں کی ٹیسٹنگ کی اور ابتدائی طور پر 24 سے 25 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے پھر متاثرہ افراد کے رابطے میں آنے والوں کو تلاش کیا اور کہا گیا کہ وہ خود کو گھروں میں آئسولیٹ کریں۔ ایک ماحول بنا ہوا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی وبا نہیں ہے جبکہ کچھ لوگ تو بدقسمتی سے اسے پروپیگینڈا کے طور پر استعمال کر رہے ہیں کہ حکومت پروپیگینڈا کر رہی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ صرف پیر جو گوٹھ میں 246 کیسز آئے اور اس جگہ کیے گئے ٹیسٹ کے 55 فیصد مثبت آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ جلد از جلد مثبت مریضوں کو آئیسولیٹ کیا جائے اور پیر جو گوٹھ میں ایک سخت لاک ڈاؤن کریں، میری وہاں کے لوگوں سے درخواست ہے کہ انتظامیہ سے تعاون کریں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 2، 3 دن پہلے کہا تھا کہ کراچی میں کھلنے والی دکانوں پر ٹیسٹنگ کی جائے گی اور ہم نے وہاں ٹیسٹنگ کی جس میں کچھ کیسز مثبت آئے۔ احتیاط کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لوگ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں اور اگر ضرورت کے تحت باہر نکلیں تو سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور ماسک کو لازمی پہنیں جبکہ گھر واپسی پر بزرگوں اور بچوں سے دور رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن کے فیز 2 میں جارہے ہیں، آپ کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ بالکل باہر نہ نکلیں کیونکہ آپ کی زندگی سے زیادہ کوئی اور چیز قیمتی نہیں ہے۔

سینئر ڈاکٹرز نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی مخالفت کردی

کراچی: (دنیا نیوز) ملک میں بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد کے بعد سندھ کے سینئر ڈاکٹروں نے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اور ہمارے ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اس لیے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے دیگر تنظیموں کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹراکرام نے کہا کہ یہ دروازے کھول رہے ہیں جس سے یہ بیماری اور وبا پھیلے گی۔ ڈاکٹرز اپنی قوم کے لیے یا مریضوں کے لیے سنجیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کی ضمیر کی بات ہے کہ کسی بات یا دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ان دنوں کوئی شخص بھی بھوک کے باعث نہیں مرا۔ اگر کوئی مرا ہے تو یا کسی بیماری یا وہ کورونا وائرس کا شکار تھا۔

لاک ڈاؤن کے خاتمے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پھرحکومت کو مریضوں کو سہولیات زیادہ کرنا ہوگا جو ہم سجھتے کہ ابھی تک نہیں ہے، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بہت برا حال ہے، مریض ایک ہسپتال سے دوسرے میں گھوم رہے ہیں لیکن کسی کی رہنمائی نہیں کی جارہی ہے۔
پی ایم اے اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سمیت دیگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے آج سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اصولی فیصلہ کیا ہے جبکہ پی ایم اے اور دیگر ہماری تنظیمیں سخت لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر پر عمل کے لیے عوامی آگاہی پر زور دے رہی ہیں تاکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو۔

انہوں نے کہا کہ حکومت مؤثرطبی سہولیات عمل میں لائے، اس وقت کراچی میں 5 سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے لیے مخصوص کیے گئے بستروں (وینٹی لیٹرز) کی تعداد 63 ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جب اس کا یہ حال ہے تو دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگریہی صورت حال رہی تو ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ جس کو ہم لاک ڈاؤن کہتے ہیں اس کو سبزی مارکیٹ، نادرا کے دفتر کے باہر اور جہاں کوئی چیز تقسیم ہورہی ہے وہاں جلوس لگا ہوا ہے جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر نظر رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس کو لاک ڈاؤن کہا جارہا ہے اس کو ہم جو سمجھتے ہیں وہ لاک ڈاؤن نہیں ہے اور ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں اور اسی طرح جب نرمی ہوگی تو پھر کیا ہوگا۔ ہم حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل کیاجائے۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کیا حالات ہوں گے اور ہم سمجھتے ہیں حالات خراب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن پر مکمل عمل نہیں کیا جارہا تھا تو بھی کیسز میں اضافہ ہورہا تھا اور اب جب کیسزکی تعداد میں زیادہ اضافہ ہورہا ہے تو بندشوں میں نرمی کی جارہی ہے جس پر ہمیں تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جب کیسز میں اضافہ ہوتا ہے تو لاک ڈاؤن برقرار رہتا ہے اور جب کیسز میں کمی آتی ہے تو بتدریج نرمی کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہورہا ہے کہ جب کیسز بڑھ رہے ہیں تو لاک ڈاؤن میں نرمی کرہے ہیں۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن ہے کہ جب گراف نیچے آنے لگے تو لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کی جائے اور ہمیں تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر کی ذمہ داری عوام پر ڈال رہی ہے اورہمارا مطالبہ ہے حکومت ایس اوپیز پر عمل کروائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دنوں ہمارا ایک ساتھی ڈاکٹر فرقان کا انتقال ہوا کیونکہ جب مریض ہسپتال میں آتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے ہمارے پاس بستر نہیں ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس کو ایک نظام کے زیر لانا چاہیے۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ایک سینٹریلائزڈ نظام ہو تاکہ ہسپتال میں جگہ نہیں ہوتو مریض کو دوسرے ہسپتال کا بتایا دیا اور ایک ہیلپ لائن ہوگی تو ایمبولینس کو بھی پتہ ہوگا کہ کس ہسپتال میں جگہ ہے اور وہاں جانا ہے، اس کے لیے ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے جو انتہائی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ اب مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ملک بھر کے ڈاکٹروں نے جس تشویش کا اظہار کیا تھا وہ درست ثابت ہورہی ہیں۔

حکومت کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ اگر اسی فیصلے کو برقرار رکھنا ہے تو خدارا صحت کے ڈھانچے کو درست کریں، ہم پہلے رو رہے تھے مچھر اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نہیں نمٹ سکتے تو ایسے میں کورونا وائرس آگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب کیسز میں اضافہ ہوگا تو ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے جگہ بھی بنانی ہوگی اس وقت کراچی میں صرف 63 وینٹی لیٹرز ہیں جبکہ بلوچستان حکومت کے پاس 20 ڈسپوزیبل وینٹی لیٹر ہیں اس کے علاوہ 60 وینٹی لیٹر ہیں جو تشویش کی بات ہے۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر اقدامات نہیں کیے گئے تو اس طرح میں ہم مریضوں کو سنبھال نہیں سکیں گے، ہسپتالوں میں سہولیات بڑھانی ہوں گی۔

کورونا وائرس کا علاج کرنے والے طبی عملے کو فرنٹ لائن فوج کا کہا جاتا ہے لیکن آپ نے نہتے لوگوں کو بھیج دیا ہے، اس وقت 800 ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف بیمار ہیں اور آئسولیشن میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مریض علاج کے لیے ہسپتال جارہا ہے اور جو ان کاعلاج کررہے ہیں وہ آئسولیشن کے لیے گھروں کو جارہے ہیں اس لیے ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس دی جائیں۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ ہمیں حفاظتی کٹس کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں جو کمی کی ہے اس کو واپس لیا جائے گوکہ صوبائی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ کمی نہیں ہوگی بلکہ الاؤنس بھی دیا جائے گا۔

کورونا وائرس کے علاج کے دوران جان بحق ہونے والے ڈاکٹروں کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے اب تک جاں بحق ہونے والے ہمارے 10 ساتھیوں کے بارے میں پوچھا تک نہیں ہے۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ جاں بحق ڈاکٹروں کے اہل خانہ سے معلوم کریں کس حال میں ہیں اور ان ڈاکٹروں کے لواحقین کے لیے پیکج کا اعلان کریں۔

ڈاکٹروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گھروں سے کورونا وائرس کے مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے بہتر اقدامات کریں اور پولیس کو گھروں میں نہیں بھیجیں کیونکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور لوگ اس سے کتراتے ہیں۔

کورونا متاثرین کیساتھ ناروا سلوک ناقابل برداشت ہے: وزیراعظم عمران خان

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے حوالے سے پاکستان میں حالات دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں قابو میں ہیں، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے صورتحال میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ متاثرین کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل برداشت ہے اور خوف کا موجب بنتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے نیشنل ہیلتھ ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، اجلاس میں چیئرمین نیشنل ہیلتھ ٹاسک فورس ڈاکٹر نوشیروان برکی، معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد، صوبائی وزیر صحت خیبر پختونخواہ تیمور سلیم جھگڑا اور سینئر افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

صوبائی وزراء صحت نے صوبوں میں کورونا وائرس کی صورتحال سے شرکا ء کو آگاہ کیا وزیراعظم کے فوکل پرسن کوویڈ-19 ڈاکٹر فیصل نے ملک بھر کی کورونا صورتحال پر بریفنگ دی۔

عمران خان کاکہنا تھا کہ عوام اگر کورونا وائرس کی علامات محسوس کریں تو فوری اور بلا خوف ٹیسٹ کے لئے رجوع کریں۔ عوام میں آگاہی مہم شروع کرنے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور اس حوالے سے جلد ایک حکمت عملی وضع کی جائے۔

صوبائی وزراءصحت نے اپنے صوبوں میں کورونا وائرس کی صورتحال، ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال، ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت و سہولت کے اقدامات، کورونا ٹیسٹنگ کی استعداد میں اضافے کے حوالے سے شرکاءکو آگاہ کیا۔

وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے کوویڈ19 ڈاکٹر فیصل نے ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں کورونا وائرس کے متاثرین کے اعدادوشمار، شرح اموات، کیسز کے تناسب کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان دوسرے ممالک کی نسبت کورونا وائرس سے کم متاثر ہوا ہے۔

شرکاءکو آگاہ کیا گیا کہ مارچ کی نسبت کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ لیبز کی تعداد کو 4 سے بڑھا کر 63 تک لے جایا جا چکا ہے۔

صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے ہوم قرنطینہ کے حوالے سے اقدامات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کہ اس حوالے سے جلد باضابطہ لائحہ عمل کا اعلان کر دیا جائے گا۔

وزیراعظم نے کورونا وائرس کے متاثرین کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنے کے واقعات کی رپورٹ کے حوالے سے نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ طرز عمل ناقابل برداشت ہے اور خوف کا موجب بنتا ہے۔

وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام اگر کوروناوائرس کی علامات محسوس کریں تو فوری اور بلا خوف ٹیسٹ کے لیے رجوع کریں۔

اس ضمن میں عوام میں غیر ضروری ہچکچاہٹ اور خوف کے تاثر کو زائل کرنے کے حوالے سے وزیر اعظم نے ایک جامع اور بھرپور عوامی آگاہی مہم شروع کرنے کے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا اور اس حوالے سے جلد ایک مربوط حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایت کی۔

وزیراعظم نے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی کم شرح کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی پاکستان میں حالات دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت قابو میں ہیں۔ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور عوام میں اعتماد اجاگر کرنے سے صورتحال میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔

ینگ ڈاکٹرایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رضوان کورونا کا شکار
ینگ ڈاکٹرایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رضوان کورونا کا شکار ہوگئے۔ ڈاکٹر رضوان نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ٹیسٹ کرایا تھا۔

ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا خود کو ہاسٹل کے کمرے میں آئسولیٹ کیا ہے، 2 روز سے بخار اور جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ خیبرپختونخوامیں اب تک 130 سے زائد ڈاکٹر اور طبی عملہ کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

خیال رہے پاکستان میں کورونا کے متاثرین تیزی سے بڑھنے لگے، ملک بھر میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 27 ہزار 474 تک پہنچ گئی جبکہ ایک دن میں 24 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد اموات کی تعداد 618 ہوگئی۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 1637 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، پنجاب میں سب سے زیادہ 10 ہزار 471، سندھ میں 9 ہزار 691، خیبر پختونخوا میں 4 ہزار 327، بلوچستان میں ایک ہزار 876، گلگت بلتستان میں 421، اسلام آباد میں 609 جبکہ آزاد کشمیر میں 79 کیسز رپورٹ ہوئے۔
 

Advertisement