نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکا میں کورونا وائرس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح، جو اپریل میں چار اعشاریہ چار فیصد تھی، اب بڑھ کر 14.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ معیشت کی بدحالی کی وجہ سے اڑھائی کروڑ نوکریاں ختم ہو گئی ہیں جبکہ برطانوی معیشت میں 300 سال کی بدترین گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق نومبر 1982ء کے بعد ملک میں بے روزگاری کی شرح میں یہ سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت یہ شرح 10.8 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
امریکا میں کورونا کی وبا کے باعث کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں نوکریاں ختم ہوئیں۔ گزشتہ ہفتے بھی مزید 32 لاکھ امریکیوں نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں دائر کی ہیں۔
مارچ کے وسط سے اب تک بے روزگار افراد کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد تین کروڑ 33 لاکھ ہو چکی ہے جو کہ امریکہ کی کل افرادی قوت کا 20 فیصد ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 1930 میں آنے والے معاشی بحران جسے ،گریٹ ڈپریشن کا نام دیا گیا تھا، کے بعد اب دنیا کی معیشت تیزی سے سست روی کی جانب جا رہی ہے۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ نوکریوں سے محروم ہیں ان کو جلد ہی نوکری ملے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ چین نے جان بوجھ کر وائرس پھیلایا، چین کے ساتھ تجارتی معاہدے سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا، عالمی ادارہ صحت کی فنڈنگ سے متعلق جلد فیصلہ کروں گا،
دریں اثناء بینک آف انگلینڈ کا کہنا ہے کہ کورونا کے بحران کیوجہ سے معیشت 14 فیصد سکڑ سکتی ہے، جو برطانیہ کے لیے 176 کے بعد سب سے بڑا معاشی جھٹکا ہے۔
رپورٹ میں برطانیہ کے مرکزی بینک کے گورنر اینڈریو بیلی نے کہا کہ اس بحران کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ صورتحال سے جلد نکلنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی لوگ پیسہ خرچ کرنے میں محتاط رہیں گے۔ معاشی حالات معمول پر آنے میں کم از کم ایک سال لگ سکتا ہے۔
بینک آف انگلینڈ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں برطانوی معیشت تین فیصد سکڑ گئی لیکن دوسری سہ ماہی میں معاشی گراوٹ بدتر ہو کرپچیس فیصد ہوگئی۔ بینک کے مطابق اگر برطانیہ میں جون اور ستمبر کے دوران پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں تب بھی توقع ہے کہ اس سال معیشت چودہ فیصد تک سکڑ جائے گی۔
ان حالات میں برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح موجودہ چار فیصد سے بڑھ کر نو فیصد ہوجانے کا امکان ہے۔ ایسے میں شہریوں اور کاروبار کو ریلف دینے کے لیے برطانیہ کے مرکزی بینک کی طرف سے شرح سود میں کمی کرکے اسے صفر اعشاریہ ایک فیصد کی ریکارڈ کم سطح پر لایا جا چکا ہے۔
وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت کی طرف سے 37 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے، جسکے تحت کاروبار کے لیے ٹیکسوں ادائیگیوں میں نرمی اور ایک سال کے لیے بلا سود قرضوں کی فراہمی شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے معیشت سے متعلق تخمینوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آنے والے مہینوں میں کورونا کی وبا پر قابو پا لیا جائے گا لیکن ماہرین کے مطابق اگر ایسا نہ ہوا تو اقتصادی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔