لاہور: (دنیا نیوز) سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا کہ مارکیٹیں کھلتے ہی رش بڑھ گیا، ایسی کیا مجبوری تھی کہ لوگ مارکیٹوں میں ٹوٹ پڑے، رش سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید آخری عید ہو، اس کے بڑی حد تک ذمہ دار وزیر اعظم خود ہیں۔
پروگرام تھنک ٹینک کی میزبان سیدہ عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا وزیر اعظم کو بیماری کی طرف زیادہ توجہ دینی تھی وہ تو کاروبار کھولنے پر زور دیتے رہے، عمران خان ملتے تو سیٹھوں سے ہیں، بات غریبوں کی بھوک کی کرتے ہیں، سیٹھوں کے کاروبار کھولنے سے کون سا غریبوں کو روزگار مل گیا ؟ حکومت کا پیغام موثر ہوتا تو یہ ہڑبونگ نہ مچتی۔
روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ کورونا وائرس اور معیشت میں توازن ہونا چاہئے، بازاروں، مارکیٹوں میں کھلے عام ایس او پیز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں کورونا وائرس میں شدت آئی ہے، ریاست چاہے تو اپنی بات منوا سکتی ہے، شروع میں لاک ڈاؤن کے دوران سڑکیں خالی ہوگئی تھیں، بعد میں صورتحال مختلف ہوگئی، وزیر اعظم غیر منتخب افراد کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں، ریاست رٹ کو قائم کرے گی تو ایس او پیز پر بھی عمل ہوگا۔
ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ حکومت نے چیزوں کو بیلنس نہیں کیا، پاکستان میں بھوک سے کوئی نہیں مرے گا، ہمیں بھوک کی گردان نہیں پڑھنی چاہئے، بیماری سے بچاؤ اور معیشت میں توازن پیدا کرنا ہے، ہمارے ملک میں قانون پر عمل نہ کرنے کی کوئی قیمت نہیں، یہاں دکاندار سمجھتے ہیں پکڑے گئے تو چھوٹ جائیں گے، جس بازار میں قانون کی خلاف ورزی ہو اسے بند کر دیا جائے، تاجر تنظیمیں وعدے تو کرلیتی ہیں لیکن کہی باتوں پر عمل نہیں کرتیں، جب قانون نہیں مانیں گے تو پولیس سختی تو کرے گی۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ وزیر اعظم نے گزشتہ میڈیا بریفنگ میں بڑی متوازن گفتگو کی ہے، ہر بات کے ساتھ کورونا وائرس کے خطرے سے بھی آگاہ کیا، پوری دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جس کے پاس اس بیماری کا علاج ہو، بیروزگاری اور کورونا دونوں ہمارے لئے بڑے چیلنجز ہیں، حکومت دونوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔