لاہور: (مفتی منیب الرحمن) اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اپنی مخلوقات میں سے بعض اشخاص کو دوسرے اشخاص پر، بعض مقامات کو دوسرے مقامات پر اور بعض زمانوں کو دوسرے زمانوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے،سال بھر میں جو راتیں گردش میں آتی ہیں ، ان میں سے قرآن مجید نے جس شبِ اقدس کا نہایت جلالت شان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، بلکہ اس کی عظمت شان اور قدر ومنزلت کو بیان کرنے کیلئے ایک مکمل سور ت نازل ہوئی ہے ، وہ ’’لیلۃ القدر ‘‘ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بلاشبہ ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں اتارا ، اور آپ کچھ جانتے ہیں کہ شبِ قدر کیا ہے شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس میں فرشتے اور روح (القدس) اپنے پروردگار کے حکم سے ہرامر( خیر ) کیلئے اترتے ہیں،یہ (رات) سراسر سلامتی ہے ( اور یہ کیفیت خیر وبرکت) طلوع فجر تک جاری رہتی ہے‘‘۔
مفسرین کرام نے ’’لیلۃ القدر ‘‘ کے نام سے اس رات کو موسوم کرنے کی کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،مثلاًاسکے ایک معنی ’’قدر و منزلت‘‘ کے ہیں اور یہ شرف کیا کم ہے کہ ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائے۔ ’’قدر‘‘ کے ایک معنی تقدیر وتدبیر اور مقدار مقرر کرنے کے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ اس رات کو سال بھر کیلئے قضاء و قدر کے معاملات طے فرما کر اْن فرشتوں کو تفویض فرماتا ہے جو ’’مْدَبِّراتِ امر‘‘ کہلاتے ہیں اور جن کے سپرد کائنات کے تکوینی امور کا نظام ہے ،ان امور میں بندوں کے حیات و ممات ، رزق کی فراخی اور تنگی ، صحت ومرض ،اقتدار پر عزل و نصب، بارشوں کی فراوانی یا قحط سالی ودیگر معاملات شامل ہیں۔’’ قدر‘‘ کے ایک معنی تنگی کے ہیں ، یعنی اس رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے اتنی کثیر تعداد میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ یہ خطۂ ارضی اپنی وسعتوں کے باوجود ان کیلئے تنگ ہوجاتا ہے۔
امتِ محمدیہ کیلئے نعمتِ عظمیٰ:
تقریباً تمام مفسرین کرام نے ’’سورۃ القدر ‘‘کے شان نزول میں لکھا ہے کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ کے سامنے گزشتہ امتوں کے ایسے عابدین کا تذکرہ فرمایا، جنہوں نے 80 سال مسلسل اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس طرح گزارے کہ ایک لمحے کیلئے بھی اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی،بعض نے ان سے حضرت ایوبؑ ، حضرت حزقیلؑ ، حضرت یوشعؑ اور حضرت زکریاؑ مراد لیے ہیں، بعض دیگر حضرات کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سن کر صحابہ کرامؓ کو ان پر رشک آیا ، کیونکہ صحابہ کرامؓ خیر کے کاموں کیلئے حریص تھے اور امور خیر کیلئے ان میں بے پناہ جذبۂ مسابقت تھا ، انہوں نے سوچا کہ ہر ایک اتنی عمر نہیں پاتا کہ اس میں سے 80 سال خالص عبادت میں بسر کر سکے، لہٰذا انہیں اس سے قَلق ورنج ہوا ،توان کی طمانیت اور تسکینِ قلب کیلئے اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ القدر ‘‘ نازل فرمائی اور اس میں یہ بشارت دی کہ ہم تمہیں شبِ قدر کی صورت میں ایک ایسی نعمت ِ عظمیٰ عطا کر رہے ہیں کہ اگر کسی خوش نصیب کو یہ ایک رات مل جائے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ذکر وفکر ، عبادت ، قیام ، تلاوت ، تسبیح و تحمید و اذکار ، درود پاک اور دعا میں گزار لے،تو اسے بارگاہِ الوہیت سے30 ہزارراتوں کی عبادت سے زیادہ اجر عطا فرمائے گا ،جس میں شبِ قدر شامل نہ ہو ، بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر وثواب اور انعام واکرام سے نوازے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی منفرد وممتاز نعمت ہے جو پچھلی امتوں کو نصیب نہیں ہوئی اور یہ خاتم الانبیاء ، سیّدْ المرسلین ، رحمۃ للعالمینؐ کا وسیلہ کرم اور تصدق ہے ، جس پر یہ امت جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔
کم عبادت پر زیادہ اجر کیوں ؟
عمومی ضابطہ تو یہی ہے کہ ہر عبادت پر اجر اس کی مقدار اور معیار کے مطابق عطا کیا جاتاہے ، لیکن بعض اوقات نسبت کے بدلنے سے جزا وسزا کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں ، مثلاًگھر پر تنہا نماز پڑھنے کا اجر10 گنا ، مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا اجر 27 گنا، مسجد نبویؐ میں 50 ہزار گنا اور مسجدا لحرام میں1 لاکھ گنا عطا کیا جاتا ہے۔اسی طرح اگر کسی خوش نصیب مومن کو یہ شب اقدس عالمِ بیداری میں مل جائے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے تو 1 ہزار ماہ (یعنی 83سال 4ماہ )کی مسلسل عبادت سے بھی زیادہ اجر وثواب بارگاہ خداوندی سے اسے عطا کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر کون سی ہے ؟
اس بارے میں مختلف روایات واقوال ہیں۔ راجح اقوال یہ ہیں کہ یہ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کی کوئی رات ہے ، اور یہ عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے،رسولؐ اللہ کا فرمان ہے :’’شبِ قدر کو رمضان المبارک کی آخری 10 راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری ) سب سے زیادہ راجح قول یہ ہے کہ یہ ستائیسویں شبِ رمضان ہے۔صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جلیل القدر تابعی زِر بن حبیشؒ نے صحابی رسولؐ حضرت اُبی بن کعبؓ سے کہا کہ آپؓ کے دینی بھائی عبداللہ بن مسعودؓ تو کہتے ہیں کہ جو شخص پورے سال کی راتوں میں قیام کرے گا ، وہ لیلۃ القدر کو پالے گا ( یعنی شبِ قدر سال کی غیر معینہ رات ہوتی ہے)، تو فرمائیے آپؓ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟ توحضرت اُبَی بن کعبؓ نے بیان کیا:حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ، غالباً وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرکے شوقِ عبادت سے غافل نہ ہوجائیں ، ورنہ انہیں یقیناً معلوم ہے کہ یہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے ، پھر حضرت اُبَی بن کعبؓ نے پورے یقین کے ساتھ قسم کھا کر بیان کیا:یہ ستائیسویں شب ہی ہے ، زِربن حْبَیش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اُبَی بن کعبؓ سے عرض کیا : آپؓ اتنی قطعیت کے ساتھ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے بیان کیا: ہمیں رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا کہ’’ شبِ قدر کی صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تواس کی شعاع نہیں ہوتی ‘‘حضرت اُبَی بن کعبؓ کے اس قول کا منشا ء یہ ہے کہ انہوں نے بارہا زبان پاک رسول اکرم ﷺسے بیان کردہ علامات کی روشنی میں تجربہ کرکے علم الیقین حاصل کرلیا ہے کہ یہ ستائیسویں شب ہی ہے۔
ستائیسویں شب کے شبِ قدر ہونے پر سورۃ القدر سے قرائن :
سورۃ القدر میں ’’لیلۃ القدر ‘‘ کا کلمہ3 مرتبہ آیا ہے اور لیلۃ القدر میں 9 حروف ہیں اور 9 کو 3 سے ضرب دیں تو حاصل ضرب 27 آتا ہے۔ امام رازیؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے۔شبِ قدر کو مخفی رکھنے کی حکمت ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں شبِ قدر کا صراحت کے ساتھ تعین نہیں فرمایا کہ یہ کون سی شبِ اقدس ہے۔ اس کی مستور حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے اطاعت شعار اور عبادت گزار اس رات کو پانے کی جستجو میں ایک نہیں کئی راتیں ، رمضان المبارک کی ساری راتیں یا کم از کم عشرہ اخیرہ کی ساری طاق راتیں اپنے معبود ِ حقیقی کے ذکر وفکر اور عبادت میں مگن رہ کر گزار دیں ،اور مالک حقیقی کی یاد میں مشغول رہ کر ، توبہ واستغفار کرتے ہوئے ، خشوع وخضوع اور تضَرع میں ڈوب کر جو بھی رات گزر جائے ، وہ شبِ قدر سے کم نہیں ہے۔ گویا اصل مقصد رِضا ئے رب ، لِقائے مولیٰ اور حضوری بارگاہِ ربّْ العالمین کی لذتِ روحانی وایمانی کو پالینے کی تڑپ، جذب وجنون اور شوق وارفتگی بندۂ مومن کے دل میں پیدا کرنا ہے اور یہی کیف وسرور روحِ شبِ قدر ہے ۔ اس شبِ اقدس کو مستور رکھنے کی ایک حکمت گناہ گارانِ امت اور غفلت شعاروں کو اس نعمت ِ عظمیٰ کی ناقدری کے وبال سے بچانا ہے ، کیونکہ جو خوش نصیب اپنی راتوں کی نیند ، آرام وسکون اور لمحاتِ عیش ونشاط کوقربان کر کے اس مبارک شب کو تلاش کریں گے ،وہ اللہ جلّ شانہ کے فضل وکرم سے یقیناً اسے پالیں گے۔
شبِ قدر میں فرشتوں کا سلام:
اللہ جلّ شانہ نے فرمایا: ’’ اس (مبارک رات ) میں فرشتے اور (بطور خاص ) جبرائیل امینؑ (زمین پر) اترتے ہیں ، اپنے ربِّ ذوالجلال کے حکم سے ، اور (اہل ایمان کو) سلامتی کی نوید دیتے ہیں‘‘۔
شبِ قدر میں عبادت کا طریقہ:
رسولؐ اللہ کا فرمان ہے :’’جس (خوش نصیب )نے شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اجر وثواب کی نیت سے قیام کیا تواس کے سارے پچھلے گناہوں کو اللہ جلّ شانہ (اپنے خصوصی فضل وکرم سے)معاف فرمادے گا‘‘۔ اس حدیث پاک کی رو سے اس مبارک شب کی سب سے نمایاں اور مقبول عبادت اللہ تعالیٰ کے حضور قیام ، بکثرت نوافل کا اہتمام اور دعا ئے مغفرت ہے اور سب سے بڑا انعام مغفرت کامل ہے۔ اس رات یہ دعا بھی بکثرت پڑھنی چاہیے : ’’اَللّٰھْمَّ اِنَّکَ عَفْوّْ کَرِیمْ تْحِبّْ العَفوَ فَا عفْ عَنَّا‘‘ترجمہ:’’اے اللہ!تو نہایت کرم فرمانے والا ، معاف فرمانے والا ہے ،تو عفو وکرم کو پسند فرماتا ہے ، تو ہم گناہ گاروں کو بھی معاف فرما‘‘۔