اسلام آباد: (شعیب نظامی) شوگر انکوائری رپورٹ کی فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ سٹہ بازی نے چینی سکینڈل میں جلتی پر تیل کا کام کیا، کم پیداوار کے باوجود برآمد کی اجازت دی گئی جس سے سٹہ باز مافیا بے لگام ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق شوگر مافیا کے سٹہ باز چینی خریدتے ہیں نہ سٹاک رکھتے ہیں بلکہ صرف اس کی قیمت پر سٹے بازی کرتے ہیں، سٹہ بازوں کی بے جا اور غیر ضروری مداخلت چینی کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ہنزہ شوگر ملز میں چینی کی قیمت پر سٹہ بازی کی گئی اور ناجائز مال بنایا گیا۔ ہنزہ شوگر میں 29 کروڑ روپے کی چینی ایڈوانس کے سودوں میں بک کی گئی، اس میں ایک سٹے باز شہزاد فیصل نے 4800 ٹن چینی کی ایڈوانس بکنگ کیلئے ایک کروڑ 12 لاکھ 50 ہزا روپے کا زر بیعانہ بھی دیا۔
جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کے آڈٹ میں بھی سٹہ بازی کے شواہد ملے ہیں اور تحقیقات ایسے سٹہ بازوں تک پہنچی ہیں جو جے ڈی ڈبلیو اور اتحاد شوگر ملز دونوں کیلئے سٹہ بازی کرتے تھے، ان سٹہ بازوں کے ڈسٹری بیوٹرز کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں، سٹہ باز مافیا فیکٹری میں پڑی چینی پر ہی سٹہ بازی کرتا اور مال بناتا تھا۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ شوگر ملز انتظامیہ، سٹہ باز اور ان کے سہولت کاروں کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ قوانین ان کے خلاف بھرپور گرفت نہیں رکھتے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق غیر رجسٹرڈ سیل ٹیکس ایجنٹس بھی چینی مہنگی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ انہی غیر رجسٹرڈ ڈسٹری بیوٹرز کی وجہ سے شوگر انڈسٹری کے لین دین کو دستاویزی بنانے میں مشکل پیش آتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 میں جوں ہی بجٹ کے بعد چینی پر سیلز ٹیکس میں اضافہ ہوا تو چینی کی قیمت 3 روپے 60 پیسے فی کلو بڑھی۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ذخیرہ اندوز بھی شوگر مافیا سے جڑے ایک مہرے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ مافیا بھی چینی کی قیمت میں اثر انداز ہوتا ہے اور ذخیرہ پڑے پڑے مہنگا ہوجاتا ہے تاہم یہ بھی المیہ سے کم نہیں کہ پنجاب اور سندھ کے پاس ذخیرہ اندوزوں کا کوئی ڈیٹا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق سال 2015 سے 2018 تک گنے کی امدادی قیمت 180 روپے من تک برقرار رکھی گئی اور 2018 میں 4 سال کے بعد اس میں 10 روپے فی من کا اضافہ کیا گیا اور اسکی قیمت 190 روپے من کردی گئی۔ یوں گنے کی امدادی قیمت میں 5.56 فیصد اضافہ ہوا جو مہنگائی کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جس سے کاشت کاروں کو درست قیمت نہیں ملی۔