اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرلیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ یہ دیکھنا ہے اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی حیثیت کیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے ریفرنس کی سماعت کی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، بظاہر لگتا ہے ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی، جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں ؟۔
دوران سماعت فروغ نسیم نے درخواست گزار وحید ڈوگر کے ایسٹ ریکوری یونٹ کو خط سے متعلق آگاہ کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ لندن پراپرٹیز کی معلومات کس طرح انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں، تحقیقات کی اجازت کس نے دی ؟ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے نام کا پتا کیسے چلا، اسے تو نام کے سپیلنگ نہیں آتے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وحید ڈوگر کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام کا آغاز ہوگیا، کیا اسے غیب سے معلومات ملیں، اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہوتے ہیں۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں، کسی نقطے کو بغیرجائزہ لیے نہیں چھوڑا جائے گا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں تھے؟۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے، کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے، فرض کرلیں یہ ایک کمزور ریفرنس ہے جس کے پس پردہ مقاصد ہیں، کیا سپریم جوڈیل کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔