اسلام آباد: (دنیا نیوز) جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ نے وفاق سے 4 سوالوں کے جواب طلب کرلیے۔ عدالت نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بچے اور اہلیہ ان کے زیر کفالت ہیں تو ثابت کریں، کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟۔
فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئےموقف اختیار کیا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں اور منی ٹریل کیا ہے ؟ پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا ؟ اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ معزز جج کہتے ہیں منی ٹریل اور وسائل کا بچوں اور اہلیہ سے پوچھا جائے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ بولے جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کر کے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے ؟ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے؟ کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے ؟ کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آج آپ انکم ٹیکس قانون کی بنیاد پر کیس بتا رہے ہیں لیکن ریفرنس میں انکم ٹیکس قانون کو بنیاد نہیں بنایا گیا، پہلے ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہونے کے نقطے پر دلائل دیں۔ عدالت نے وفاق سے چار سوالوں کے جواب بھی مانگ لیے ؟ ریفرنس کا مواد غیر قانونی اکھٹا کرنے پر دلائل دیں ؟ بتایا جائے شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی ؟ شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی۔ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کیں ؟ اور اس یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔